پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد جہاں ملک بھر میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر آپریشن جاری ہیں، وہیں اب ملک کے سب سے گنجان آباد صوبہ پنجاب میں رینجرز کے تعاون سے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تاہم صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ سلامتی سے متعلق صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے قائم ’ایپکس کمیٹی‘ یہ واضح کرے کہ رینجرز کن علاقوں میں کارروائی کریں گے۔
واضح رہے کہ چاروں صوبوں میں ’ایپکس کمیٹیاں‘ قائم ہیں جن میں وزیراعلیٰ اور کور کمانڈز سمیت تمام متعلقہ اداروں کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہوتے ہیں۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اس بارے میں مختلف نشریاتی اداروں سے گفتگو میں کہا کہ یہ تمام فورسز کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کے کارروائی کی جائے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ اور رینجرز ایکٹ کے تحت رینجرز کو بلایا گیا ہے اور اُنھیں ’سرچ اور گرفتار‘ کرنے کی اختیار حاصل ہوں گے۔
تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ یہ مشترکہ کارروائیاں ہوں گی جن میں انٹیلی جنس ایجنساں، محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور رینجرز شامل ہوں گے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ رینجرز کو کتنی مدت کے لیے یہ اختیارات دیئے گئے ہیں تاہم رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اس مدت میں توسیع کی جاتی رہے گی اور جب تک ضرورت ہو گی رینجرز سول فورسز کی مدد کرتے رہیں گے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ رینجرز کی کارروائیوں میں توجہ صوبے کے اُن جنوبی علاقوں میں دی جائے گی، جن کی سرحدیں دیگر صوبوں سے ملتی ہیں۔
پاکستان میں مختلف حلقوں بشمول حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صوبہ پنجاب، خاص طور پر اس صوبے کے جنوبی اضلاع میں رینجرز کی کارروائی کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال اپریل میں صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سرگرم جرائم پیشہ گروہ ’’چھوٹو گینگ‘‘ کے خلاف جب پولیس کو کامیابی نہیں ملی تو فوج نے کارروائی کی تھی جس کے بعد اس گینگ کے سربراہ غلام رسول نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔