کراچی —
پاکستان میں پشتو فلموں کے شوقین افراد کی تعداد کچھ کم نہیں۔ بالخصوص صوبہ خیبر پختوانخواہ میں آج بھی جتنے شوق و ذوق سے پشتو یا مقامی فلمیں دیکھی جاتی ہیں، ان کے آگے بھارتی فلمیں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
پشاور کی سرزمین پر آنکھ کھولنے والے بلو خان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا، ’شہر میں اس وقت نو سنیما گھر ہیں۔ لیکن، عیدالاضحیٰ کا موقع ہونے کے باوجود، نو میں سے سات سنیما ہالز میں پشتو فلموں کی نمائش ہوئی، جبکہ باقی دو سنیما میں انگریزی فلمیں لگی تھیں۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہاں کے لوگ آج بھی مقامی اور خاص کر پشتو فلموں کو پسند کرتے ہیں۔‘
سنہ 2007 میں شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لئے‘ کی کامیابی کے بعد پہ در پہ کئی فلمیں بنیں اور انہوں نے کامیابی کے نئے ریکارڈ بھی قائم کئے اور اب بھی کررہی ہیں مثلاً بول، سیاہ، چنبیلی، عشق خدا، جوش، میں ہوں شاہد آفریدی، زندہ بھاگ اور وار۔۔ لیکن، ان میں سے ایک بھی فلم پشاور میں نمائش کے لئے پیش نہیں ہوئی۔ اس کے مقابلے میں پشتو فلمیں ’زادی پختون، غیرت‘ اور ’غنڈاگیر‘ نہ صرف ریلیز ہوئیں بلکہ انہوں نے اچھا خاصا بزنس بھی کیا۔
پچھلے ہفتے یعنی عیدالاضحیٰ کے موقع پر پنجابی اور اردو فلموں کی ہیروئن میرا کی پہلی پشتو فلم ’اوربل‘ ریلیز ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم میں میرا کی موجودگی نے خاصی شہرت کمائی اور کسی حد تک اچھا بزنس بھی کیا۔ اس فلم کے پروڈیوسر شاہد خان ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’میرا جیسے مین اسٹریم فنکاروں کا پشتو فلموں میں کام کرنا ایک سنگ میل ہے۔‘ حالانکہ، اس سے قبل وینا ملک اور خوشبو بھی پشتو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہٹ کر دوسرے صوبوں خاص کر سندھ اور کراچی کی بات کریں تو یہاں پشتو فلموں کو ایک ’مخصوص رنگ‘میں لیا جاتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں کے پروڈیوسر علی عدیل نے اس حوالے سے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’اس رنگ میں فحاشی کی آمیزیش زیادہ ہے۔معیار سے گرے ہوئے رقص کو فلموں میں زبردستی گھسانا، بے ہنگم مکالمے اور غیر معیاری شاعری و گھٹیا اشارے اصل فلم میں ہوں نہ ہوں ناجانے درمیان میں کہاں سے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں پشتو فلمیں (خصوصاً اس قسم کی ) سنجیدہ ناظرین میں نہ پسند کی جاتی ہیں اور نہ دیکھی جاتی ہیں۔‘
علی عدیل اپنے تجربات کے حوالے سے مزید کہتے ہیں، ’ایک پشتو اداکارہ جس کا نام میں سامنا نہیں لانا چاہوں گا، نئی نئی پشتو فلموں میں آئی تو میں نے اس کی دبلی پتلی جسامت کو دیکھ کر کہا آپ پشتو فلموں کے ٹرینڈ پر پورا نہیں اترتی۔ کس طرح ایڈجسٹ کریں گی؟ وہ جواباً بولی میں یہی ٹرینڈ تو چینج کرنے آئی ہوں۔۔۔ بعد کے سالوں میں، میں نے دیکھا فلمیں ٹرینڈ تو وہی رہا۔ لیکن، وہ اداکارہ خود دوچار فلموں سے زیادہ نہ چل سکی۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پشتو فلموں کے لئے’ مخصوص جسامت‘ بھی ہونی ضروری ہے‘ ۔
حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ داخلہ اور قبائلی امور نے پانچ پشتو فلموں کی نمائش پرمخص اسی لئے پابندی لگا دی تھی کہ ان میں سنسر کے بعد فحاش مناظر شامل کردیئے تھے جنہیں دکھانے کے لئے سنسر بورڈ کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام پشتوفلمیں غیر معیاری ہوتی ہوں۔ بلکہ، سینکڑوں فلمیں ایسی بھی ہیں جو حقیقت میں دیکھنے والوں کو انٹرٹین کرتی ہیں۔ پشاور اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے سنیما ہالز میں دکھائی جانے والی کامیاب فلمیں اس کی زندہ مثال ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پشتو فلمیں اتنی بدنام کیوں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کیپیٹل سنیما پشاور کے منیجر خالد خان نے ’ٹری بیون‘ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’اس کا انحصار مارکیٹ ڈیمانڈ پر ہے۔ زیادہ تر افراد پشتو فلمیں دیکھنا چاہتے تھے۔ حالانکہ، اس دوران بھارتی فلمیں بھی نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔ لیکن، لوگوں نے انہیں بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ بات وہی ہے کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’جس وقت پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت ملی تھی اس کے کئی مہینے بعد تک پشاور اور صوبے بھر کے سینما ہالز میں بھارتی فلموں کی نمائش جاری رہی۔ لیکن، انہیں پشتو فلموں کے مقابلے میں ذرا بھی پذیرائی نہیں ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سنیما ہالز ایک مرتبہ پھر پشتو فلموں کی نمائش پر آگئے۔‘
پشاور کے ایک فلم پروڈیوسر مظفر خان کا کہنا ہے کہ اردو یا بھارتی فلمیں جب پشاور آتی ہیں تو یہ پشتو فلموں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ حالانکہ، پشتو فلموں کا بجٹ بہت محدود ہوتا ہے۔ اس کے باوجود، پشتو فلموں کی ڈیمانڈ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہاں یہ بات دیگر ہے کہ دہشت گردی اور کچھ دوسری وجوہات کے سبب فلموں اور فلم دیکھنے والوں۔۔ دونوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ شہر کے سنیما ہالز کی حالت بھی نہایت ناگفتہ با ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، تہواروں کے موقع پر یہاں خوب رش رہتا ہے۔ تمام سنیما ہالز کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لوکل فلمیں نمائش کے لئے پیش کریں۔ ایسے میں سنیما مالکان اردو یا بھارتی فلمیں چلانے کا رسک نہیں لے سکتے ۔ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لئے پشتو فلموں کو ہی نمائش کے لئے پیش کرتے ہیں۔‘
پشاور کی سرزمین پر آنکھ کھولنے والے بلو خان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا، ’شہر میں اس وقت نو سنیما گھر ہیں۔ لیکن، عیدالاضحیٰ کا موقع ہونے کے باوجود، نو میں سے سات سنیما ہالز میں پشتو فلموں کی نمائش ہوئی، جبکہ باقی دو سنیما میں انگریزی فلمیں لگی تھیں۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہاں کے لوگ آج بھی مقامی اور خاص کر پشتو فلموں کو پسند کرتے ہیں۔‘
سنہ 2007 میں شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لئے‘ کی کامیابی کے بعد پہ در پہ کئی فلمیں بنیں اور انہوں نے کامیابی کے نئے ریکارڈ بھی قائم کئے اور اب بھی کررہی ہیں مثلاً بول، سیاہ، چنبیلی، عشق خدا، جوش، میں ہوں شاہد آفریدی، زندہ بھاگ اور وار۔۔ لیکن، ان میں سے ایک بھی فلم پشاور میں نمائش کے لئے پیش نہیں ہوئی۔ اس کے مقابلے میں پشتو فلمیں ’زادی پختون، غیرت‘ اور ’غنڈاگیر‘ نہ صرف ریلیز ہوئیں بلکہ انہوں نے اچھا خاصا بزنس بھی کیا۔
پچھلے ہفتے یعنی عیدالاضحیٰ کے موقع پر پنجابی اور اردو فلموں کی ہیروئن میرا کی پہلی پشتو فلم ’اوربل‘ ریلیز ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم میں میرا کی موجودگی نے خاصی شہرت کمائی اور کسی حد تک اچھا بزنس بھی کیا۔ اس فلم کے پروڈیوسر شاہد خان ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’میرا جیسے مین اسٹریم فنکاروں کا پشتو فلموں میں کام کرنا ایک سنگ میل ہے۔‘ حالانکہ، اس سے قبل وینا ملک اور خوشبو بھی پشتو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہٹ کر دوسرے صوبوں خاص کر سندھ اور کراچی کی بات کریں تو یہاں پشتو فلموں کو ایک ’مخصوص رنگ‘میں لیا جاتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں کے پروڈیوسر علی عدیل نے اس حوالے سے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’اس رنگ میں فحاشی کی آمیزیش زیادہ ہے۔معیار سے گرے ہوئے رقص کو فلموں میں زبردستی گھسانا، بے ہنگم مکالمے اور غیر معیاری شاعری و گھٹیا اشارے اصل فلم میں ہوں نہ ہوں ناجانے درمیان میں کہاں سے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں پشتو فلمیں (خصوصاً اس قسم کی ) سنجیدہ ناظرین میں نہ پسند کی جاتی ہیں اور نہ دیکھی جاتی ہیں۔‘
علی عدیل اپنے تجربات کے حوالے سے مزید کہتے ہیں، ’ایک پشتو اداکارہ جس کا نام میں سامنا نہیں لانا چاہوں گا، نئی نئی پشتو فلموں میں آئی تو میں نے اس کی دبلی پتلی جسامت کو دیکھ کر کہا آپ پشتو فلموں کے ٹرینڈ پر پورا نہیں اترتی۔ کس طرح ایڈجسٹ کریں گی؟ وہ جواباً بولی میں یہی ٹرینڈ تو چینج کرنے آئی ہوں۔۔۔ بعد کے سالوں میں، میں نے دیکھا فلمیں ٹرینڈ تو وہی رہا۔ لیکن، وہ اداکارہ خود دوچار فلموں سے زیادہ نہ چل سکی۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پشتو فلموں کے لئے’ مخصوص جسامت‘ بھی ہونی ضروری ہے‘ ۔
حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ داخلہ اور قبائلی امور نے پانچ پشتو فلموں کی نمائش پرمخص اسی لئے پابندی لگا دی تھی کہ ان میں سنسر کے بعد فحاش مناظر شامل کردیئے تھے جنہیں دکھانے کے لئے سنسر بورڈ کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام پشتوفلمیں غیر معیاری ہوتی ہوں۔ بلکہ، سینکڑوں فلمیں ایسی بھی ہیں جو حقیقت میں دیکھنے والوں کو انٹرٹین کرتی ہیں۔ پشاور اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے سنیما ہالز میں دکھائی جانے والی کامیاب فلمیں اس کی زندہ مثال ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پشتو فلمیں اتنی بدنام کیوں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کیپیٹل سنیما پشاور کے منیجر خالد خان نے ’ٹری بیون‘ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’اس کا انحصار مارکیٹ ڈیمانڈ پر ہے۔ زیادہ تر افراد پشتو فلمیں دیکھنا چاہتے تھے۔ حالانکہ، اس دوران بھارتی فلمیں بھی نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔ لیکن، لوگوں نے انہیں بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ بات وہی ہے کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’جس وقت پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت ملی تھی اس کے کئی مہینے بعد تک پشاور اور صوبے بھر کے سینما ہالز میں بھارتی فلموں کی نمائش جاری رہی۔ لیکن، انہیں پشتو فلموں کے مقابلے میں ذرا بھی پذیرائی نہیں ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سنیما ہالز ایک مرتبہ پھر پشتو فلموں کی نمائش پر آگئے۔‘
پشاور کے ایک فلم پروڈیوسر مظفر خان کا کہنا ہے کہ اردو یا بھارتی فلمیں جب پشاور آتی ہیں تو یہ پشتو فلموں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ حالانکہ، پشتو فلموں کا بجٹ بہت محدود ہوتا ہے۔ اس کے باوجود، پشتو فلموں کی ڈیمانڈ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہاں یہ بات دیگر ہے کہ دہشت گردی اور کچھ دوسری وجوہات کے سبب فلموں اور فلم دیکھنے والوں۔۔ دونوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ شہر کے سنیما ہالز کی حالت بھی نہایت ناگفتہ با ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، تہواروں کے موقع پر یہاں خوب رش رہتا ہے۔ تمام سنیما ہالز کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لوکل فلمیں نمائش کے لئے پیش کریں۔ ایسے میں سنیما مالکان اردو یا بھارتی فلمیں چلانے کا رسک نہیں لے سکتے ۔ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لئے پشتو فلموں کو ہی نمائش کے لئے پیش کرتے ہیں۔‘