قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمان الثانی منگل کو مختصر دورے پر اسلام آباد پہنچے جہاں اُنھوں نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات خلیجی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی پر بات چیت کی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر کی طرف سے شرائط کے بارے میں قطر کی جواب سے پاکستانی وزیراعظم کو آگاہ کیا۔
گزشتہ ماہ سعودی عرب سمیت کئی عرب اور اسلامی ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے گئے تھے، جب کہ بعد ازاں تعلقات کی بحالی کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کی جانب سے 13 مطالبات پیش کیے گئے تھے۔
ان مطالبات میں قطر کی حکومت سے نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی بندش، ایران کے ساتھ تعلقات میں کمی، قطر سے ترکی کے فوجی اڈے کے خاتمے اور قطر میں مقیم اسلامی تحریکوں کے کارکنوں اور قیادت کی بے دخلی کے مطالبات شامل تھے۔
تاہم قطر کی قیادت نے ان مطالبات پر مکمل طور پر عمل درآمد کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا خود مختاری سے دستبرداری کے مترادف ہو گا۔
لیکن بعد ازاں قطر نے اپنا جواب سعودی عرب اور دیگر ممالک کو بھیج دیا تھا، لیکن یہ واضح نہیں کہ قطر نے اپنے جواب میں کیا کہا۔
اسلام آباد کے دورے کے دوران وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمان نے کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح کی طرف سے ثالثی کی کوششوں سے متعلق بھی پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو آگاہ کیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کے تمام خلیجی ممالک سے قریبی تعلقات ہیں اور مشرق وسطیٰ میں موجودہ بحران پر اسلام آباد کو تشویش ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام مسلم ممالک کے درمیان مسائل کا سفارتی حل چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازع کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ جون کے وسط میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور اس معاملے پر شاہ سلمان بات چیت کی تھی۔
وطن واپسی پر وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازع جلد حل ہو جائے گا۔
گزشتہ ماہ پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل 34 رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان حالیہ تنازع میں غیر جانبدار رہے۔
پاکستان کے قطر اور سعودی عرب دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں اور دونوں ملکوں میں لاکھوں پاکستانی حصولِ روزگار کی غرض سے مقیم ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر بطور زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔