|
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی میں قطر کے کردار پر تنقید نے خلیجی ریاست کو اپنے نقادوں کو جواب دینے پر مجبور کر دیا ہے جو ایک غیر معمولی بات ہے۔
قطر، جس نے 2012 سے امریکہ کی حمایت کے ساتھ حماس کی سیاسی قیادت کی میزبانی کی ہے، غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے لیے کئی مہینوں سے پس پردہ بات چیت میں مصروف ہے۔
لیکن، اب مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور قطر پر، خاص طور پر اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے حماس پر دباؤ ڈالنے کے مطالبوں کے پیش نظر، متحدہ عرب امارات کی اس ریاست نے خبردار کیا ہے کہ وہ ثالث کے طور پر اپنے کردار سے دستبردار ہو سکتی ہے۔
کیا قطر کا رد عمل ثالثی کے اصولوں کے منافی تھا؟
مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار نیل کوئلیم نے کہا کہ قطر کا ردعمل ثالثی کے اصولوں کے منافی تھا۔
چیتھم ہاؤس کے ماہر نے اے ایف پی کو بتایا، “ثالث عام طور پر تنقید کا جواب نہیں دیتے۔”
کوئلیم نے کہا کہ قطریوں کو “اسرائیلیوں، نیتن یاہو کی جانب سے براہ راست اور (امریکی) کانگریس کے ارکان کی جانب سے متعدد بار تنقید کا سامنا ہوا ہے، میرے نزدیک ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا ہے ۔ “
جیو پولیٹکس کے ماہر جیمز ڈورسی نے قطر کے ردعمل کو ’’فائٹ بیک‘‘ سے تعبیر کیا۔
انہوں نے اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “یہ ان فریقوں میں سے ایک کے لیے بھی غیر معمولی رد عمل تھا جسے ثالث پر تنقید کے لیے ممکنہ طور پر وہ ثالثی درکار ہے۔”
حماس قیادت کب تک قطر میں رہے گی؟
اس ماہ کے شروع میں، واشنگٹن میں قطری سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا جس میں ڈیموکریٹک قانون ساز سٹینی ہوئر کے ان مطالبوں پر،کہ امریکہ قطر کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے، تنقید کی گئی تھی۔
نومبر میں، واشنگٹن میں قطر کے سفیر نے ریپبلکن سینیٹر ٹیڈبڈ کے ساتھ معاملہ اٹھایا، جنہوں نے پوچھا تھا کہ دوحہ کب تک حماس کی میزبانی جاری رکھے گا، جنہیں انہوں نے “ایسے دہشت گرد قرار دیا جن کے ہاتھ امریکی خون سے رنگے ہیں۔”
اس ہفتے، انصاری نے کہا کہ حماس کی سیاسی قیادت دوحہ میں اس وقت تک رہے گی جب تک کہ ان کی موجودگی ثالثی کے لیے فائدہ مند رہے گی۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ حماس کے باقی رہنے کے بارے میں حتمی فیصلہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک قطر اپنے کردار کا از سر نو جائزہ مکمل نہیں کر لیتا۔
کوئلیم نے کہا کہ حماس کے قطر سے جانے کے امکان کا سوال اٹھانے کا مقصد ایک اسٹریٹیجک موقف کی تشکیل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ قطر نے ثالثی سے دستبردار ہونے کی بات، اچھی طرح یہ جانتے ہوئے کہی تھی کہ امریکہ ایسا نہیں چاہے گا یا وہ ایسا ہونے نہیں دے گا۔
مذاکرات کی کامیابی میں حائل مسائل
جنوری میں، قطر نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مذاکرات کو اس وقت نقصان پہنچایا تھا جب ان کی لیک ہونے والی وہ ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں جن میں وہ دوحہ کو حماس کے ساتھ اس کے تعلقات کی وجہ سے ایک قابل اعتراض ثالث قرار دے رہے تھے۔
ایک ماہ بعد، نیتن یاہو نے امریکی یہودی رہنماؤں سے اپنےخطاب میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ، حماس مالی طور پر خلیجی ریاست پر انحصار کرتا ہے، کہا کہ قطر کو گروپ پر اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت انصاری نے ایکس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ قطر نے “خالی خولی الزامات” کو مسترد کر دیا ہے اور یہ کہ قطر، حماس کی بجائے غزہ کے لوگوں کو جو امداد دیتا ہے وہ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ دی جاتی ہے، جیسا کہ نیتن یاہو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔
قطر نے یہ انتباہ کیوں کیا ؟
اس ہفتے، وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ قطر نے اپنے کردار کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ، سیاسی نکتہ چینی سے مایوسی کی وجہ سے کیا ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت میں شامل شخصیات کی جانب سے تنقید شامل ہے۔
قطر کے ترجمان نے نومبر کی ایک ہفتے پر محیط جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں دوحہ کی ثالثی سے بیسیوں اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالوں کو رہا کیا کیا گیا تھا، کہا کہ“ وہ سب جانتے ہیں کہ قطر کا کردار کیا ہے، اس کی نوعیت کیا ہے اور پچھلے مرحلے کے دوران اس کی تفصیلات بھی، لیکن انہوں نے جھوٹ بولا۔“
جیو پولیٹکس کے ماہر جیمز ڈورسی نے کہا کہ قطر کا ردعمل خاص طور پر ان ناقدین کے لیے تھا جن کا تعلق امریکہ سے ہے، جس کے ساتھ درحقیقت قطر کے بنیادی مفادات وابستہ ہیں، کیونکہ دوحہ کے واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات، اسے ایک اہم سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔
خلیجی ریاست خطے کے سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتی ہے اور اسے واشنگٹن نے ایک بڑے غیر نیٹو اتحادی کے طور پر نامزد کیا ہے۔
غزہ جنگ کے اثرات
غزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً 1,170 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی فوج نے حماس کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے جس میں غزہ میں 34,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے دوران تقریباً 250 اسرائیلی اور غیر ملکیوں کو یرغمال بنایا تھا، لیکن نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران درجنوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل کا اندازہ ہے کہ باقی 129 یرغمال غزہ میں ہیں، یہ ایک ایسی تعداد ہے جس میں وہ 34 یرغمال بھی شامل ہیں جن کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم