سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے کے بعد جہاں یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ مرکز میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت برقرار رہے گی یا نہیں وہیں عدالتی فیصلے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے منگل کو اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو وہ ووٹ شمار نہیں ہو گا اور منحرف رکن کو پارٹی پالیسی کا پابند ہونا چاہیے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جب کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ چوں کہ شہباز شریف کی حکومت کے حق میں بعض منحرف ارکان نے ووٹ دیا تھا اس لیے عدالتی فیصلے کے بعد اب وہ وزیرِ اعظم نہیں رہے۔
فواد چوہدری کے بقول اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے بعد وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اپنا جواز کھو بیٹھی ہیں۔ اس لیے انہیں استعفیٰ دے کر فوری نئے انتخابات کی جانب جانا چاہیے۔
مرکز میں حکومت برقرار رکھنے کے لیے حکمراں اتحاد کے پاس 172 ارکان کا نمبر پورا ہے لیکن پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کے لیے نمبرز گیم اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ دوسری جانب اعلیٰ عدالت کے فیصلے پر ناقدین سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔
صحافی کامران یوسف سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ دو دھاری تلوار ہے۔ ان کے بقول اس فیصلے کا منفی پہلو یہ ہے کہ پارٹی کا رکن قیادت سے معمولی اختلاف بھی نہیں کر پائے گا اور نہ لیڈر کو اپنی جماعت کے ارکان کی پرواہ ہو گی۔
کامران یوسف کہتے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان میں وراثتی سیاست اور پارٹی کے اندر آمریت کو فروغ ملے گا اور پارٹی کا سربراہ صحیح معنوں میں آمر بن جائے گا۔
قانونی ماہر ریما عمر کہتی ہیں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے کا طریقہ کیا ہے؟ اس پر سپریم کورٹ اپنے مختصر فیصلے میں بظاہر خاموش نظر آتی ہے۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں آرٹیکل 63 اے میں واضح لکھا ہے کہ رکنِ قومی و صوبائی اسمبلی اگر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو بعض کیسز میں وہ ڈی سیٹ ہو جاتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے ووٹ کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔
سابقِ دورِ حکومت کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان ماضی میں ایک ٹی وی پروگرام میں اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 95 تمام ارکان کو ووٹ کا حق دیتا ہے چاہے اس کے جو بھی نتائج ہوں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر محمد تقی نامی ٹوئٹر صارف کہتے ہیں جب ووٹ گننا نہیں ہے تو ووٹ کا حق ہی کیوں ہے۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ حلف اٹھاتے ہی ہر رکن پارلیمان اپنا ووٹ اپنی جماعت کے قائد کو پکڑا کر گھر چلا جائے۔
تحریکِ انصاف کے منحرف رکنِ قومی اسمبلی راجا ریاض نے اپنے ایک ٹوئٹ میں سوال اٹھایا کہ اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا تو پھر عدم اعتماد کی شق کا کیا مقصد ہے؟
یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ عدم اعتماد کے قانونی طریقے سے ہوا تھا اور تحریکِ انصاف سمیت حکمراں اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق )کے منحرف ارکان نے اپوزیشن کا ساتھ دیا تھا۔
صحافی غریدہ فاروقی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مرکز میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت برقرار رہے گی اور عمران خان کو نئے انتخابات کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔