بھارت کی ریاست اترپردیش کے تاریخی شہر بنارس کی ایک مقامی عدالت کی مقرر کردہ ٹیم کی جانب سے گیان واپی مسجد کے تین روزہ سروے اور ویڈیو گرافی کے بعد ہندو فریق کے ایک وکیل نے مسجد کے وضو خانے میں ہندو مذہب کی علامت ’شیو لنگ‘ پائے جانے کا دعویٰ کیا جس کے بعد عدالت نے اس حصے کو سیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت نے یہ ہدایت بھی کی کہ وہاں کوئی وضو نہیں کرے گا۔ عدالت نے نمازیوں کی تعداد میں تخفیف کر دی اور کہا کہ صرف 20 افراد ہی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
بعض ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ جو شیو لنگ ملا ہے وہ 12 فٹ اونچا ہے اور اس کا قطر آٹھ انچ ہے۔ اس دعوے کے بعد بیشتر نیوز چینلز بھی مسجد کے اندر بھگوان شیو کے ’پرکٹ‘ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
لیکن گیان واپی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے شیو لنگ پائے جانے کے دعوے کی تردید کی ہے۔
انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کے وکیل رئیس احمد انصاری کا کہنا ہے کہ ہندو فریق جس چیز کو شیو لنگ قرار ے رہا ہے وہ دراصل وضو خانے کا فوارہ ہے۔ ان کے بقول ہندو فریق کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
ادھر سپریم کورٹ نے بنارس کی انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ وہ کون سی جگہ ہے جہاں شیو لنگ ملنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اس جگہ کے تحفظ کی ہدایت دی ہے، تاہم یہ بھی کہا ہے کہ نمازیوں کو کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ مسجد منتظمہ کمیٹی کی درخواست پر 19 مئی کو سماعت کرے گی۔
پانچ ہندو خواتین نے بنارس کی ایک ذیلی عدالت میں اپیل دائر کرکے کہا تھا کہ مسجد کی مغربی دیوار پر واقع گوری شرنگار مندر میں ان کو یومیہ پوجا کی اجازت دی جائے۔ اب تک وہاں سال میں ایک بار پوجا کی اجازت تھی۔
عدالت نے اس اپیل پر سماعت کرتے ہوئے رواں سال آٹھ اپریل کو متنازع علاقے کا جائزہ لینے کے لیے ایڈووکیٹ اجے کمار مشرا کو کمشنر مقرر کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ وہاں کی ویڈیوگرافی کریں اور رپورٹ عدالت میں جمع پیش کریں۔
مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے اس عدالتی حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا لیکن ہائی کورٹ نے اس اپیل کو خارج کر دیا۔
بنارس کی ذیلی عدالت نے 26 اپریل کو پھر ویڈیو گرافی کا حکم دیا البتہ مسجد کمیٹی نے کمشنر پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی جگہ پر کسی اور کو کمشنر مقرر کرنے کی گزارش کی۔عدالت نے اس اپیل کو بھی خارج کر دیا تھا۔ اس نے کمشنر سمیت تین افراد کی ایک کمیٹی بنا تے ہوئے حکم دیا کہ وہ 16 مئی تک سروے مکمل کرکے 17 مئی کو اپنی رپورٹ داخل کرے۔
مذکورہ کمیٹی نے مسجد کے اندر باہر اور اس کے تہہ خانوں کی بھی ویڈیو گرافی کی۔ بند کمروں کو پولیس کی مدد سے کھلوایا گیا اور وضو خانے کے حوض کا پانی نکلوا کر اس کی بھی ویڈیو گرافی کی گئی۔
وضو خانے کی ویڈیو گرافی مکمل ہونے کے بعد کمیٹی کے ارکان نے مسجد کے احاطے سے نکل کر دعویٰ کیا کہ وضو خانہ کے حوض میں شیو لنگ پایا گیا ہے۔ کمیٹی نے فوراً عدالت کو اس کی اطلاع دی اور عدالت نے فوری طور پر اس کو سیل کرنے اور وہاں وضو نہ کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کا الزام ہے کہ عدالت نے اس کا مؤقف سنے بغیر یک طرفہ طور پر یہ حکم صادر کیا ہے۔
عدالت کی جانب سے مقرر کردہ کمیٹی نے 17 مئی کو اپنی رپورٹ داخل نہیں کی۔ اس نے عدالت سے اپیل کی کہ اسے رپورٹ داخل کرنے کے لیے دو روز کا وقت دیا جائے جسے عدالت نے منظور کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایڈووکیٹ کمشنر کو ہٹا دیا ہے۔ ان پر جانب داری کا الزام عائد کیا جا رہا تھا۔
قبل ازیں سروے روکنے کی مسجد کمیٹی کی درخواست کو الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے خارج کیے جانے کے بعد کمیٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کرکے سروے پر پابندی لگانے کی اپیل کی تھی۔
واضح رہے کہ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے حکم پر کاشی وشو ناتھ مندر کے ایک حصے کو منہدم کرکے اس کی جگہ پر گیان واپی مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ انہوں نے اس کی واپسی کی تحریک چلا رکھی ہے۔
جب کہ مسلم فریق اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ متعدد تاریخ دانوں نے بھی اس دعوے کو غلط قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دعوے کے ثبوت میں کوئی تاریخی شہادت پیش نہیں کی جا سکی ہے۔
یاد رہے کہ گیان واپی مسجد اور کاشی وشو ناتھ مندر ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ مسجد کے چاروں اطراف میں لوہے کے راڈ کی پنجرہ نما دیواریں بنا دی گئی ہیں اور مسجد میں داخلے سے قبل کئی جگہ سیکیورٹی کی جانچ ہوتی ہے۔
اسی کاشی وشوناتھ مندر تک پہنچنے کے لیے کاشی وشوناتھ کوریڈور تعمیر کیا گیا ہے جس کا افتتاح وزیرِ اعظم نریندرمودی نے رواں برس فروری میں کیا تھا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک بیان جاری کرکے وضو خانے کو سیل کرنے کے حکم کو سراسر ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرسنل لا بورڈ نے ویڈیو گرافی کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گیان واپی مسجد بنارس،مسجد ہے اور مسجد رہے گی۔اس کو مندر قرار دینے کی کوشش فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ان کے مطابق 1937 میں دین محمد بنام اسٹیٹ سیکریٹری معاملے میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں فیصلہ دیا تھا کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے۔ مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کیا تھا کہ متنازع اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے۔
خیال رہے کہ جب بابری مسجد کا تنازع عروج پر تھا تو 1991 میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جسے ’مذہبی عبادت گاہ قانون 1991‘ کہا جاتا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی وہ اسی شکل میں رہے گی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکے گی۔
یعنی ایک مذہب کی عبادت گاہ کو دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں نہیں بدلا جائے گا۔ تاہم بابری مسجد کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔
مولانا رحمانی نے کہا کہ گیان واپی میں نماز کی ادائیگی مسلمانوں کے آئینی حقوق کا معاملہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے اور 1991 کے قانون کا احترام کرتے ہوئے تمام عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
متعدد قانون دان کہتے ہیں کہ مذکورہ قانون کی روشنی میں کسی بھی عبادت گاہ کو دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں نہیں بدلا جا سکتا۔ اس سلسلے میں کئی ماہرینِ قانون نے اخباروں میں مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کے خیال میں کسی عبادت گاہ کو دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں بدلنے کی کوشش غیر قانونی ہوگی۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان بنارس کی ذیلی عدالت کی جانب سے گیان واپی مسجد کے سروے اور ویڈیو گرافی کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں از خود کارروائی کرکے اس قسم کے تمام معاملات کو اپنے یہاں طلب کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک عام حکم جاری کرنا چاہیے کہ اگر کہیں کسی عبادت گاہ کے بارے میں ایسا کوئی مقدمہ دائر کیا جاتا ہے تو اسے سماعت کے لیے منظور نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی عبادت گاہ کے سلسلے میں کوئی دعویٰ کیا گیا ہے تو اسے بھی گیان واپی مسجد کی انتظامی کمیٹی کے مقدمے سے منسلک کر دیا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل رویندر کمار کہتے ہیں کہ 1991 کے قانون کی خلاف ورزی کو روکا جانا چاہیے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ 1991 کے قانون کی دفعہ چار میں کہا گیا ہے کہ جو عبادت گاہ 15 اگست 1947 کو جیسی تھی ویسی ہی رہے گی۔ اگر ایسی کسی عبادت گاہ کو دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں بدلنے کا کوئی مقدمہ زیر سماعت ہے تو اسے کالعدم مانا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ بنارس کی ایک ذیلی عدالت نے گیان واپی مسجد کے سروے اور ویڈیو گرافی کا حکم دیا جب کہ جج کو معلوم ہوگا کہ یہ اقدام مذکورہ قانون کے منافی ہے۔
رویندر کمار کے مطابق 1991 کے عبادت گاہ قانون کو سپریم کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ کے سامنے چیلنج کیا گیا ہے جب کہ بابری مسجد مقدمہ میں فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ججوں کے بینچ نے اس قانون کا حوالہ دیا تھا اور اسے درست قرار دیا تھا۔ لہٰذا پانچ ججوں کے بینچ نے جس قانون کی توثیق و تائید کی ہے اسے دو ججوں کا بینچ نہیں بدل سکتا۔
اس حوالے سے سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم نے کہا ہے کہ 1991 میں قانون سازی کے بعد کسی بھی عبادت گاہ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے راجستھان کے ادے پور میں اتوار کی شب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نرسمہا راؤ کی حکومت نے بابری مسجد جیسے تنازع سے بچنے کے لیے یہ قانون منظور کیا تھا۔