رسائی کے لنکس

'وہ سوچتی تھی اگر طلاق لی تو بچیوں کی شادی کیسے ہوگی'


"عید سے چار پانچ دن پہلے یہ واقعہ ہوا تھا۔ اس کے بعد سے ہماری کوئی عید نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کل ہی یہ سب کچھ ہوا ہو۔ ہمارا گھر قرۃالعین کے بغیر سونا ہے۔ جب بھی اس کے بچوں کو دیکھتے ہیں توجیسے وہ سامنے آجاتی ہے" ۔ یہ کہنا ہے عبدالعزیز بلوچ کا جن کی چھوٹی بہن قرۃالعین بلوچ، اٹھارہ ماہ قبل حیدرآباد بیراج کالونی میں اپنے شوہر کے ہاتھوں کئی گھنٹوں کے تشدد کے بعد ہلاک ہوگئی تھیں۔

کرمنل ٹرائل کورٹ میں چلنے والے مقدمے میں ایڈیشنل سیشن جج حیدرآباد غلام مرتضی بلوچ نے قرۃالعین کے شوہرعمر میمن کو جرم ثابت ہونے پر دس لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ سزائے موت سنائی ہے۔ ان اٹھارہ ماہ میں عینی بلوچ کے خاندان نے کیس زندہ رکھنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پریشر برقرار رکھنے کے لیے مسلسل سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی اورسڑکوں پر احتجاج کیے جس میں سندھ میں مزاحمت کی علامت سمجھی جانے والی مائی جندو سمیت انسانی حقوق کے کئی مقامی کارکنان شرکت کرتے رہے۔

قرۃالعین بلوچ اپنی بیٹی کے ساتھ قرۃالعین کی والدہ مائی جندو کے ساتھ
قرۃالعین بلوچ اپنی بیٹی کے ساتھ قرۃالعین کی والدہ مائی جندو کے ساتھ

عینی بلوچ کے خاندان کے مطابق ان 18 ماہ میں ان کی ہمت توڑنے کے لیے مخالفین کی جانب سے کئی حربے استعمال کیے گیے ۔ کبھی دھمکیاں دی گئیں تو کبھی خون بہا کی آفرز، کبھی فلیٹ کی ملکیت کا کیس کیا گیا ( جو قرۃالعین نے والد کی وراثت ملنے پر خریدا تھا) تو کبھی بچوں کی حوالگی کا کیس اور جب کچھ کام نہ آسکا تو ان کے بقول قبیلے کے عمائدین کہ ذریعے معاملات رفع دفع کرانے کی کوشش کی گئی مگر قرۃالعین کے لواحقین کا اس تمام عرصے ایک ہی مقصد رہا کہ وہ اس کے خون پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

پاکستان میں انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ نہ صرف مالی بلکہ ذہنی طور پر بھی تھکا دینے والا عمل ہے جو اکثر انصاف کے طلب گاروں کی کمر توڑ دیتا ہے۔ قرۃالعین کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ اپیل کی صورت میں وہ انصاف کی آخری سیڑھی تک اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے خواہ اس میں کتنا ہی وقت لگے۔

کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی سے جینڈر اینڈ وومنز اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی رکھنے والی استاد، تحقیق کار اور سماجی کارکن سیدہ نایاب بخاری کا کہنا ہے گو کہ سیشن کورٹ انصاف کی تلاش کا پہلا مرحلہ ہے لیکن یہ بات خوش آئند ہی کہی جاسکتی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ بہرحال 18 ماہ میں دے دیا گیا، ورنہ پاکستان میں نظام انصاف کی خامیوں سے کون واقف نہیں۔ ان کے مطابق دوسری اہم اور خاص بات اس کیس کی یہ ہے کہ قرۃالعین کا خاندان اس کیس پر مضبوطی سے جما رہا ورنہ بہت سے خاندان کبھی معاشی وجوہات پر تو کبھی مخالفین کے اثرورسوخ کی وجہ سے پہلے ہی نا امید ہوتے ہیں اور انصاف کے حصول کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔

دوسری طرف مدعی کے وکیل سمیع اللہ رند کو امید ہے کہ اگر اپیل ہائی کورٹ میں جاتی ہے تو اعلیٰٗ عدالت اس کیس پر فیصلہ دینے میں زیادہ وقت نہیں لے گی کیونکہ ان کے نزدیک سیشن کورٹ کا فیصلہ جامع اور مفصل ہے۔

قرۃالعین بلوچ
قرۃالعین بلوچ

عزیزاللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قرۃالعین اور عمر کے یہاں پہلی بچی کے بعد عمر نے مار پیٹ کا سلسہ شروع کر دیا تھا۔

’’ ہم نے ایک بار اسے چھ ماہ اپنے گھر رکھا اور جانے نہیں دیا، مگر اس کے ساس سسر نے یہ یقین دہانی کرائی کہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا‘‘۔

ان کے بقول قرۃالعین یہ سوچتی تھی کہ شاید یہ سدھر جائے گا۔

قرۃالعین کے بھائی بتاتے ہیں کہ وہ یہ بھی کہتی تھی کہ اگر انہوں نے طلاق لے لی تو پھر ان بچیوں سے کون شادی کرے گا کیونکہ معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

عزیزاللہ بلوچ کے مطابق دوسری وجوہات بھی تھیں جن کی وجہ سے عینی کوئی فیصلہ کرنے سے رک جاتی تھی۔’’ جب چھ ماہ کے لیے وہ ہمارے گھر تھی تو اس کا شوہر ایک دن بچوں کو اسکول سے ہی اپنے گھر لے گیا اور ویڈیو کال ملا کر بچوں کو مارا پیٹا اور کہا کہ میں عدالت سے بچوں کی حوالگی لے لوں گا۔ جس طرح میں پولیس کو رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہوں ویسے ہی جج کو بھی خرید لوں گا اور بچے لے لوں گا، عینی یہ دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی‘‘۔

تو کیا عمر میمن کو پہلے بھی پولیس حراست میں لے چکی تھی؟ عزیزاللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’کئی بار‘‘۔

’’وہ اپنے بچوں پر بھی تشدد کرتا تھا ایک بار بچے کا ٹوٹا بازو لے کر اسپتال گئے تو ڈاکٹر نے خود پولیس کو شکایت کی اور پولیس نے اسے حراست میں لیا‘‘۔

ان کے بقول عینی کے’’ چار میں سے دو بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہوئی اور دونوں بار ایسا اس پر تشدد کی وجہ سے ہوا۔ اس وقت بھی خود ڈاکٹر نے پولیس بلوائی لیکن عمر میمن کا خاندان سیاسی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ اس نے کبھی چند گھنٹے بھی تھانے میں نہیں گزارے‘‘۔

قرۃالعین کے خاندان کے مطابق اس کا شوہر اسے گھر کا خرچہ دینے کے بجائے کبھی اس سے زیور مانگتا تھا کبھی گھر والوں سے رقم لانے کا مطالبہ کرتا تھا۔ مقتولہ کے بھائی کے مطابق قتل کی رات بھی عینی کی جانب سے بچوں کے لیے عید کے جوتے خریدنے کی فرمائش پر عمر میمن طیش میں آیا جس کے بعد تشدد کا سلسلہ کئی گھنٹے جارے رہا جس کی چشم دید گواہ دونوں کی آٹھ سالہ بیٹی رامین زہرہ تھی جو کیس میں مرکزی گواہ بھی بنی۔

قرة اتعین کی بینٹی اپنی ماں پر ظلم کے خلاف مظاہرے میں شریک ہے۔
قرة اتعین کی بینٹی اپنی ماں پر ظلم کے خلاف مظاہرے میں شریک ہے۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق ملک کی سماجی اور مذہب کے نام پر ہونے والی تفریق میں پاکستان خواتین کے لیے دنیا کا چوتھا بدترین ملک ہے جہاں غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کیے جانے جیسی روایت بھی پائی جاتی ہے۔

پاکستان پر ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق میں ہر تین میں سے ایک شادی شدہ عورت گھریلوجسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے اور رپورٹ کے مطابق یہ اعداد غیر رسمی ہیں یعنی اصل صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ خواتین کے لیے مساوی معاشی موقعوں، تعلیم کے موقعوں ،صحت اور سیاسی طور پر بااختیار ہونے جیسے معیارات پر مبنی عالمی موازنے سے متعلق سال 2022 کے گلوبل جینڈر گیپ انڈکس میں پاکستان 146 ملکوں کی فہرست میں 145 نمبر پرموجود ہے۔ خواتین کے لیے ایران اور سعودی عرب جیسے، ظاہری طور پر جابرانہ معاشرے بھی پاکستان سے بہتر رینکنگ رکھتے ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن کی خواتین پر تشدد سے متعلق سال 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بلوچستان میں 16 عورتیں قتل ہوئیں جب کہ دو کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں33 عورتیں قتل ہوئیں، 11 کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں 68 عورتوں کا قتل ہوا جب کہ 20 کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 35 عورتوں نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے یہاں خودکشی بھی کی۔ سندھ میں 59 خواتین کو قتل کیا گیا اور 33 کو غیرت کے نام پر مارا گیا جب کہ پنجاب میں 235 عورتیں قتل ہوئیں اور غیرت کے نام پر ماری جانے والیوں کی تعداد 15 ہے۔ 38 خواتین نے اس سال خود اپنی جان لے لی۔ یہ اعداد و شمار وہ ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں یعنی اصل تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قوانین موجود نہیں لیکن گھریلو تشدد جیسے جرائم کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر طبقے، معاشی پس منظر اور تعلیمی قابلیت والی خواتین اس کا شکار ہیں۔ ان میں قرۃالعین بلوچ جیسی ایم ایس سی، ایم بی اے پاس خواتین بھی ہیں، معاشرے کے مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی نور مقدم بھی اور اپنی زندگی کے فیصلوں پر بااختیار معاشی طور پر مکمل آزاد سارہ انعام جیسی خواتین بھی۔

پھر ایسا کیوں ہے کہ قوانین کی موجودگی میں خواتین کی اکثریت کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا شکار ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے خواتین حقوق کارکن سیدہ نایاب بخاری کہتی ہیں مسئلہ تب تک حل نہیں ہوگا جب تک ریاست اور معاشرہ اسے حقیقی مسئلہ قبول کرکے قوانین بنانے ے ساتھ ساتھ ا یسا ماحول بھی تیار کریں جہاں ان پر علمدارآمد ممکن ہو پائے۔

سیدہ نایاب بخاری تجویز دیتی ہیں کہ صنفی طور پر حساس موضوعات اسکول کی سطح سے ہی نصاب کا حصہ ہونا چاہئیں، جہاں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ خواتین کو اسکول کی سطح سے ہی پتہ ہونا چاہیے کہ صنفی تفریق پر مبنی تشدد کیا ہوتا ہے، اس کے کیا آثار ہوتے ہیں تاکہ خواتین اپنی زندگیوں اور جان کو کسی ممکنہ خطرے کو کسی انتہائی سطح تک پہنچنے سےپہلے ہی جانچ سکیں۔ ان کے بقول پھر ان خواتین کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کون سے دروازے ہیں جو وہ ضرورت پڑنے پر وہ کھٹکھٹا سکتی ہیں اور یہاں ریاست کا کردار زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ’’خواتین ملک کی آبادی کا جب نصف ہیں تو یہی تناسب پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی نظر آنا چاہیے اور عدالتوں میں بھی اور خواہ وہ پولیس ہو یا صنفی حقوق پر تعلیم دینے والے اساتذہ ، ان کی خود کی بھی جینڈر سینسٹو یعنی صنفی طور پر حساس ٹریننگ ضروری ہے‘‘۔

سیدہ نایاب بخاری کے مطابق گاؤں دیہات کی عورت کو اس کے حقوق کی آگاہی کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نیٹ ورک انتہائی موثر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے لیے کسی نئی فورس کی تشکیل کی ضروری نہیں۔ ان کے بقول ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی خواتین کی مدد کے لیے خاص ہیلپ لائنز بنائی جائیں۔ تھانوں میں ایسے کیسز خواتین افسران کے حوالے ہوں اور عدالتوں میں ایسے کیسز خواتین ججز کی عدالتوں میں جائیں جو انہیں ہمدردانہ بنیادوں پر جانچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

قانون کی حکمرانی کے لیے قوانین بہت ضروری ہیں۔ لیکن اگر ان پر عملدرآمد کا موثر نظام نہ ہو تو ان کی موجودگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ گھریلو تشدد کے لیے ملک گیر ہیلپ لائنز، ہنگامی بنیادوں پر مدد کی فراہمی اور گھریلو تشدد پر’’ زیرو ٹالرنس‘‘ جیسے اقدامات سے ریاست ملک کی نصف آبادی کو یہ اعتماد دے سکتی ہے ان کی زندگیاں ریاست کے لیے اہم ہیں اور ریاست انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔

XS
SM
MD
LG