پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کو ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں ان خبروں کی تصدیق کہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت سونپی دی گئی ہے۔
خواجہ آصف نے نجی ٹیلی ویژن چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام میں کہا کہ اس ضمن میں ایک معاہدہ ہو چکا ہے اور دعویٰ کیا کہ اس فیصلے میں نا صرف حکومت کی رضامندی شامل تھی بلکہ اُسے اعتماد میں بھی لیا گیا ہے۔ تاہم اُنھوں نے اس معاہدے سے متعلق مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا اور اُن کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی۔
لیکن نا تو جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف اور نا ہی پاکستانی فوج کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے آیا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں شدت پسند تنظیم داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں سعودی حکومت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات ہی کے سبب بظاہر سعودی عرب نے دسمبر 2015 میں دہشت گردی کے خلاف 30 سے زائد اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
ابتدا میں اس فوجی اتحاد میں 34 اسلامی ممالک شامل تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر 39 ہو چکی ہے، لیکن مسلم ممالک کے اس عسکری اتحاد میں ایران اور شام شامل نہیں ہیں۔
پاکستان میں تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تو پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنے کرنا چاہیئے لیکن پاکستان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایران کے تحفظات کا خیال رکھا جائے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اُن کا ملک پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف مختلف ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اور انسداد دہشت گردی کے اپنے تجربات کا دوسرے ملکوں سے تبادلہ کرنے کو تیار ہے۔
مسلمان ممالک کے اس فوجی اتحاد کا صدر دفتر سعودی کے شہر ریاض میں ہو گا لیکن اس اتحاد کے مقاصد اور پالیسی کے بارے میں مکمل تفصیلات واضح نہیں ہیں۔