رسائی کے لنکس

'مودی' کی ہتک کا کیس: راہل گاندھی لوک سبھا کی رُکنیت سے نااہل قرار


بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں 'لوک سبھا' نے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی رُکنیت ختم کر دی ہے۔

جمعے کو لوک سبھا سیکریٹریٹ سے جاری کیے گئے ایک نوٹی فکیشن کے مطابق راہل گاندھی کی جو کیرالہ سے رُکن منتخب ہوئے تھے رکنیت ختم کر دی گئی ہے۔

جمعرات کو گجرات کی ایک مقامی عدالت نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے’سر نیم‘ پر ہتک آمیز تبصرےکے ایک معاملے میں جرم ثابت ہونے پر راہل گاندھی کو دو سال جیل کی سزا سنائی تھی۔

لوک سبھا کے مطابق راہل گاندھی کی رُکنیت عوامی نمائندوں کے ایکٹ مجریہ 1951 اور آئینِ ہند کے آرٹیکل 102 ون ای کے سیکشن آٹھ کے تحت ختم کی گئی ہے۔

سینئر کانگریس رہنما منیش تیواری نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔

بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' سے گفتگو کرتے ہوئے تیواری کا کہنا تھا کہ لوک سبھا کے پاس کسی بھی رُکن کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ اختیار صدر کے پاس ہے جو الیکشن کمیشن کی مشاورت سے یہ فیصلہ کر سکتا ہے۔

ایک اور سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے اس فیصلے کو جمہوریت کے لیے برا دن قرار دیا ہے۔

ایک ٹوئٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی فیصلے کے 24 گھنٹے کے اندر لوک سبھا کی اس پھرتی پر دنگ رہ گئے ہیں۔ حالاں کہ راہل گاندھی کے پاس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی موجود تھا۔

سینئر رہنما کے سی وینو گوپال نے کہا کہ راہل گاندھی گوتم اڈانی اور وزیر اعظم مودی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ انہیں خاموش کرنے کی ایک ساز ش ہے۔ یہ معاملہ واضح طور پر بی جے پی حکومت کے غیر جمہوری اور آمرانہ رویے کا غماز ہے۔

کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے نے کہا کہ بی جے پی پہلے سے ہی راہل گاندھی کو نااہل قرار دلوانے کی کوشش میں رہی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی سچ بولے۔ مگر ہم سچ بولتے رہیں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم جمہوریت کے تحفظ کے لیے جیل جانے کو بھی تیار ہیں۔

کانگریس رہنما اور راہل گاندھی کی بہن پرینکا گاندھی نے اس فیصلے پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں سوال کیا کہ کیا بی جے پی بدعنوان افراد کی حمایت کرتی ہے۔


راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے کہا کہ راہل گاندھی کی رکنیت کی منسوخی آمریت کی ایک اور مثال ہے۔ بی جے پی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہی وطیرہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔ راہل گاندھی کی آواز ملک کی آواز ہے وہ اب مزیر طاقت ور ہوگی۔

کانگریس کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہم اس کے خلاف قانونی اور سیاسی دونوں طرح سے لڑیں گے۔ ہم ان دھمکیوں میں آنے اور خاموش ہونے والے نہیں ہیں۔

راہل گاندھی کو اس معاملے پر غیر متوقع طور پر ترنمول کانگریس کی صدر اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی حمایت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس فیصلے کو وزیر اعظم مودی کا نیو انڈیا قرار دیا۔

مختلف مقامات پر کانگریس کے کارکنوں کا احتجاج

اسی درمیان ملک کی مختلف ریاستوں میں کانگریس کارکنوں کی جانب سے راہل گاندھی کو سزا سنائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ دہلی سمیت کئی ریاستوں میں پولیس نے کانگریس کے متعدد کارکنوں کوحراست میں لے لیا۔

قبل ازیں کانگریس کی قیادت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے انڈیا گیٹ کے پاس سے راشٹر پتی بھون تک مارچ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک بہت بڑا بینر اٹھا رکھا تھا جس پر ’جمہوریت خطرے میں ہے‘ لکھا ہوا تھا۔

اس موقع پر پولیس نے راشٹرپتی بھون کی طرف جانے والی سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ پولیس نے کئی ارکان پارلیمان کو حراست میں لے لیا اور انھیں ایک بس میں بٹھا کر قریبی پولیس تھانے لے گئی۔ پولیس کی اس کارروائی کی وجہ سے مارچ ختم کر دیا گیا۔

راہل گاندھی کو کس الزام پر سزا ہوئی؟

گجرات کے شہر سورت کی عدالت نے راہل گاندھی کو 2019 میں دائر کیے گئے ہتکِ عزت کے فوج داری مقدمے میں جمعرات کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔ راہل گاندھی کے خلاف 'سرنیم مودی' سے متعلق ایک تقریر کے دوران تبصرے پر یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت نے اُن کی سزا 30 روز کے لیے معطل کرتے ہوئے اُنہیں سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا موقع دیا تھا۔

کانگریس کے رہنما کے خلاف یہ مقدمہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکنِ اسمبلی اور سابق وزیرِاعلیٰ گجرات پرنیش مودی نے دائر کیا تھا۔

انہوں نے اس مقدمے میں راہل گاندھی کی اس تقریر کا حوالہ دیا تھا جس میں میڈیا رپورٹس کے بقول انہوں نے کہا تھا: "تمام چوروں کا مشترکہ سرنیم مودی کیوں ہے۔"

رپورٹ کے مطابق راہل گاندھی نے سال 2019 میں ریاست کرناٹک کے شہر کولار میں یہ ریمارکس الیکشن ریلی کے دوران مفرور تاجر نیرو مودی اور للت مودی سے متعلق دیے تھے۔

اپنی درخواست میں پرنیش مودی نے الزام لگایا تھا کہ راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں پوری مودی کمیونٹی کو بدنام کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG