پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی رہائشی اریبہ روزانہ گرین لائن سے سفر کر کے نارتھ کراچی سے نمائش تک جاتی ہیں اور پھر وہاں سے آئی آئی چندریگر روڈ اپنے دفتر پہنچتی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے نتیجے میں اولڈ سٹی ایریا میں کئی کئی فٹ پانی کھڑے ہونے اور گرین لائن بس سروس نہ چلنے سے وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ بدھ کو وہ دفتر کیسے پہنچیں گی۔
محمد رضوان کھارادر کے رہائشی ہیں اس وقت ان کے علاقے میں بارش کا پانی بدستور موجود ہے یہ پانی ان کے گھر کے اندر داخل ہوچکا ہے۔ وہ اپنا کچھ سامان بچا کر بالائی منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن اطراف کی گلیوں میں جمع پانی کے سبب انہیں نہ صرف گھر سے باہر نکلنے میں دشواری کا سامنا ہے بلکہ ضرورت کی اشیا تک رسائی بھی ناممکن ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عید الاضحٰی کے دوران ہونے والی مون سون بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ موسلادھار بارشوں کے باعث شہر کے نشیبی علاقے اور اہم شاہراہیں زیرِ آب آنے سے نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
کراچی میں مون سون بارشوں کے باعث اب تک مختلف حادثات میں 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں میں بھی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔
سندھ حکومت نے پیر کو کراچی میں 'رین ایمرجنسی' نافذ کر دی تھی۔ شہر کے مختلف علاقوں بشمول کورنگی اور اورنگی میں نالے بھر جانے کے باعث پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو گیا۔
ڈیفنس، کلفٹن، نیپا چورنگی، شاہراہ فیصل اور قیوم آباد چورنگی میں بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا رہا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے جاری کردہ اعداو شمار کے مطابق اب تک مون سون کے نتیجے میں ملک بھر میں ایک ماہ کے اندر 147 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 88 خواتین بھی شامل ہیں۔
بارشوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ بلوچستان میں ہوئیں جن کی تعداد 63 بتائی جاتی ہے۔ جب کہ سندھ میں ہلاکتوں کی تعداد 26 بتائی جارہی ہے ان میں 14 اموات کراچی، 9 ٹھٹھہ، 2 خیرپور اور ایک سکھر میں ہوئیں۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں کرنٹ لگنے، ڈوبنے، گھروں کی چھت گرنے اور حادثات کے سبب ہوئیں۔
مسز اکرم گزشتہ 20 برسوں سے ڈیفنس فیز ٹو کی رہائشی ہیں اس وقت ان کے گھر کے اندر اور باہر بارش کا پانی موجود ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کو لاکھوں روپے کا ٹیکس دینے والی ڈی ایچ اے سوسائٹی اس وقت بے یارو مددگار دکھائی دے رہی ہے۔ مسز اکرم کے مطابق وہ بورڈ کو متعدد شکایات کر چکی ہیں لیکن پانی اب بھی ڈیفنس کے علاقے سے نہیں نکالا جاسکا۔ جس پر اب وہ اور ان کا خاندان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر شہر کا اتنا پوش علاقہ بارش کو سہنے کی قوت نہیں رکھتا تو وہ علاقے جہاں غریب اور متوسط طبقہ آباد ہے وہاں کیا حالات ہوں گے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ مون سون کے سبب لوگوں کی جان، مال اور املاک کا ایسے نقصان ہوا ہو۔ 2020 کی بارشوں میں بھی لوگوں کے گھروں، فرنیچر، گاڑیوں، دفاتر بارش سے تباہ ہوگئے تھے۔ اس ماہ بھی ہونے والی بارشوں نے ان مناظر کو تازہ کردیا۔ سڑکوں پر بند اور خراب گاڑیاں، موٹر سائیکلوں کو دھکا لگاتے مرد، گھروں کے اندر سے پانی نکالتے خاندان اس بارشوں میں بھی دکھائی دیے۔
بارشوں سے کراچی میں سیلابی صورتِ حال
محکمہٌ موسمیات کے مطابق کراچی میں چار سے 11 جولائی میں برسنے والی بارشوں نے ایک اسپیل میں ہی اوسطًا ایک مون سون میں برسنے والی تمام بارشوں کا ریکارڈ توڑا ہے۔
محکمۂ موسمیات کے جاری کردہ اعدادو شمار میں اب تک سب سے زیادہ بارش ڈیفنس فیز ٹو میں 342.4 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ مسرور بیس پر 324.6، فیصل بیس پر 280.5، گلشن حدید میں 251، لانڈھی میں 213، ناظم آباد میں، 203، آبزرویٹری ایریا ایئرپورٹ پر 180، نارتھ کراچی میں 153.7، جناح ٹرمینل پر 110، سرجانی ٹاون میں 196، اورنگی ٹاون میں 127، معمار میں 105 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
پیر کو کراچی کے پوش علاقوں کے دورے پر نکلے وزیرِ اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے نکاسیِ آب کا جائزہ لینے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بارش ہورہی ہو گی ریلیف کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ بارش کے رکنے پر ہی کام کیا جاسکتا ہے جو قدرتی ڈرینیج تھے وہ وقت کے ساتھ بند کردیے گئے جو اس وقت موجود ہیں ان سے نکاس کا کام کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تمام عملہ اور مشنیری شہر میں مصروف ہے اور جلد ہی سڑکیں بارش کے پانی سے صاف کر دی جائیں گی۔
پیر سے اب تک کراچی کے بیشتر علاقوں اور شاہراہوں کو شہر ی انتظامیہ، فوج اور سول اداروں کی مدد سے کلئیر کر دیا گیا ہے تاہم اب بھی مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اولڈ سٹی ایریا، کلفٹن انڈر پاسز، ڈیفنس میں پانی جمع ہے جس کے سبب وہاں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے۔
کراچی کے جن علاقوں میں نکاسیِ آب ممکن نہیں ہو پایا وہاں کئی گھنٹے سے بجلی بھی نہیں ہے جس پر کے الیکٹرک کا موٌقف ہے کہ پانی کم ہونے کی صورت میں وہ بجلی کی تاروں کو ٹھیک کرنے کا کام کرسکتے ہیں۔
مرتضی وہاب نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ وہ کووڈ-19 کا شکار ہوچکے ہیں تاہم شہری انتظامیہ اس وقت بحالی کے کامو ں میں مصروف ہے۔
سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات
کراچی میں بارشوں کے باعث ہونے والی تباہی کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔
منگل کو کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما وسیم اختر نے کہا کہ صوبے میں کئی برس سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ لیکن پھر بھی شہر کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ شہر کے ایڈمنسٹریٹر اور دیگر حکام عید منانے اندرونِ سندھ گئے ہوئے ہیں اور کراچی ڈوب رہا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفیٰ کمال نے بھی منگل کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پورے پاکستان کو پالتا ہے، لیکن اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔
دریں اثنا منگل کو وزیرِ اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرِ صدارت اجلاس ہوا جس میں وزیرِ اعلٰی سندھ نے کراچی واٹر بورڈ کو ہدایت کی کہ فوری طور پر شہر کی تمام سڑکوں سے پانی نکالا جائے۔
وزیرِ اعلٰی سندھ نے حکام کو ہدایت کی کہ بارش کے باعث جن سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے، وہاں فوری مرمت کرائی جائے۔
ملک بھر میں مون سون کی صورتِ حال
محکمۂ موسمیات اس حوالے سے پہلے ہی آگاہ کر چکا تھا کہ ملک بھر میں ہونے والی مون سون کی بارشیں اس بار غیر معمولی ہوسکتی ہیں۔ ڈی جی میٹ ڈاکٹر سردار سرفراز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں جاری مون سون کا اگر اوسط تناسب دیکھا جائے تو جتنی بارشیں برستی ہیں اس کے مقابلے میں اس وقت یہ بارشیں 200 فی صد زیادہ ہیں۔
اُن کے بقول اس وقت صوبہ سندھ اور بلوچستان میں غیر معمولی بارشیں ہورہی ہیں جو آگے اس سے بھی زیادہ شدید ہوسکتی ہیں جب کہ شمالی پنجاب میں بھی اچھی بارشیں ہورہی ہیں صرف خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں، چترال اور گلگت بلتستان میں معمول سے کم بارشیں ہیں ۔
تاہم کچھ ایسے بھی علاقے ہیں جہاں پہلے کبھی اتنی تیز بارشیں نہیں دیکھی گئیں تھیں اب وہاں بھی تیز بارشیں ہوئیں ہیں ان میں کوئٹہ، چاغی، نوشکی، چمن شامل ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس وقت کوئٹہ میں 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوچکی ہے جو معمول سے کہیں زیادہ ہے اس کے علاوہ بلوچستان کے مغربی حصے گوادر میں بھی تیز بارشوں سے سیلابی صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق جولائی کا پورا مہینہ بارشوں میں گزرے گا اس میں کہیں کہیں وقفہ آسکتا ہے۔ تاہم یہ سلسلہ اگست کے وسط تک جاری رہے گا جس کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مون سون 2020 کی طرح رہا یا نہیں۔
سردار سرفراز کے مطابق اس وقت بارشوں سے جو صورتِ حال سندھ اور بلوچستان میں بنی ہوئی ہیں اگر بارشوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہ کئی ریکارڈ توڑ سکتا ہے۔ 14 سے 18 جولائی میں آنے والا نیا اسپیل پورے ملک میں تیز بارشیں برسائے گا لیکن اس کی شدت سندھ اور بلوچستان میں زیادہ رہے گی۔
مزید اربن فلڈنگ کے خدشات
محکمۂ موسمیات کے مطابق مشرقی بھارت میں ہوا کا شدید کم دباؤ موجود ہے جو راجھستان سے آتا ہوا سندھ میں داخل ہوجائے گا اور پھر دوبارہ سے تیز بارشوں کے نتیجے میں اربن فلڈنگ کی صورتَ حال پیدا ہوجائے گی۔
اس اسپیل سے کراچی سمیت ٹھٹھہ، بدین، حیدر آباد، عمر کوٹ، جامشورو، دادو، میر پورخاص لاڑکانہ، سکھر ان سب اضلاح میں سیلابی صورتَ حال ہوسکتی ہے۔ سردار سرفراز کا کہنا ہے کہ آنے والی بارشوں سے کیرتھر اور دیگر پہاڑی سلسلوں سے آنے والے پانی کو اگر جگہ نہیں ملتی تو مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ حالیہ بارشوں سے اس وقت حب ڈیم میں مزید گنجائش نہیں رہی۔
کیا ان بارشوں اور اربن فلڈنگ کی وارننگ پہلے دی جا چکی تھی؟
محکمہٌ موسمیات کا کہنا ہے کہ جون کے پہلے ہفتے میں یہ نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا تھا کہ جولائی سے ستمبر تک ملک بھر میں تیز بارشیں متوقع ہیں جس کے نتیجے میں سیلاب کا خدشہ ہے۔ خاص کر دریائے سندھ، جہلم، چناب کے کیچمنٹ ایریا میں بارشوں کے پانی کے سبب سیلاب کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ سندھ اور کراچی میں ہونے والی بارشوں کے حوالے سے بھی سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں کو یہ پیش گوئی کردی گئی تھی کہ آنے والا مون سون کیسا ہوگا۔
سیاسی جماعتوں اور سوشل میڈیا صارفین کی سندھ حکومت پر تنقید
کراچی میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتِ حال پر جہاں سیاسی جماعتیں سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہی ہیں وہیں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی مختلف ہیش ٹیگ استعمال کیے جارہے ہیں اور سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جن کے جواب میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب نکاسی آب اور ریلیف کے کاموں کی تصاویر اور ویڈیو اپنے سماجی رابطوں کی سائٹس پر شئیر کرتے دکھائی دیے۔