رسائی کے لنکس

بھارت: بی جے پی ممبر کا پارلیمان میں مسلم رکن کو دہشت گرد کہنے پر تنازع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکنِ پارلیمان رمیش بدھوڑی کے ایک دوسرے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی، جن کا تعلق بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سے ہے، کے خلاف ایوان کے اندر دیے جانے والے قابلِ اعتراض بیان کے خلاف سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مسلم تنظیموں کا احتجاج جاری ہے۔

حزبِ اختلاف کی تقریباً تمام جماعتوں نے دانش علی کی حمایت کی ہے جب کہ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا سے رمیش بدھوڑی کی پارلیمان کی رکنیت معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپوزیشن کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل عام آدمی پارٹی کے ارکان سنجے سنگھ اور راگھو چڈھا کو محض ایوان میں نعرہ بازی کرنے پر کارروائی کرتے ہوئے معطل کیا گیا تھا۔ تو پھر بدھوڑی کو کیوں نہیں معطل کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول ان کے بدھوڑی کا ’جرم‘ زیادہ سنگین ہے۔

رمیش بدھوڑی نے جمعے کو پارلیمان کی نئی عمارت میں پہلے باقاعدہ اجلاس کے دوران خطاب میں دانش علی کو دہشت گرد کہا تھا جب کہ ان کے لیے دیگر قابلِ اعتراض جملے ادا کیے تھے۔

اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں جن میں بدھوڑی کو مذکورہ تبصرہ کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں ان کے پیچھے بیٹھے دو سابق مرکزی وزرا ڈاکٹر ہرش وردھن اور روی شنکر پرساد کو ہنستے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ کنور دانش علی اتر پردیش کے لوک سبھا حلقے امروہہ سے بی ایس پی کے ایم پی ہیں جب کہ رمیش بدھوڑی جنوبی دہلی حلقے سے بی جے پی کے رکن ہیں۔

بھارت کے ایوانِ زیریں ( لوک سبھا) کے اسپیکر اوم برلا نے بدھوڑی کے جملوں کو پارلیمانی کارروائی سے نکال دیا تھا اور متنبہ کیا کہ اگر آئندہ انہوں نے ایسی زبان کا پھر استعمال کیا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ادھر بی جے پی نے ان کو نوٹس جاری کرکے ان سے 15 دن کے اندر جواب طلب کیا ہے۔

ایوان میں رمیش بدھوڑی کے بیان کے فوراً بعد وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذکورہ بیان سے کسی رکن کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں۔

ان کے مطابق ایسی زبان کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب کہ ڈاکٹرہرش وردھن نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ان کا نام غیر ضروری طور پر گھسیٹا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ بدھوڑی کے بیان کے موقع پر روی شنکر اور ہرش وردھن کے رویے کی بھی مذمت کی جا رہی ہے۔

جماعت اسلامی (ہند) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کنور دانش علی کے خلاف رمیش بدھوڑی نے لوک سبھا میں جو جارحانہ اور توہین آمیز زبان استعمال کی ہے اس سے ملک کا ہر مہذب شہری ناراض ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس ناشائستہ طرزِ گفتگو اور نازبیا الفاظ کے استعمال نے پارلیمان کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

جماعتِ اسلامی کے نیشنل سیکریٹری کے کے سہیل کا کہنا تھا کہ ایک مسلم رکن پارلیمان کو نسلی گالیاں دینا اور اس کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنا کر بد زبانی کرنا پوری مسلم برادری کی تذلیل اور نفرت انگیزی ہے۔

ان کے بقول خاص طور پر پارلیمانی اجلاس کے دوران ایسے غیر مہذب الفاظ کے استعمال سے پارلیمان کا وقار مجروح ہوا ہے۔

جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ بدھوڑی کو پارلیمانی رکنیت سے نااہل قرار دیا جائے اور پارٹی سے برخاست کیا جائے۔ ا س سے کم سزا سے بھارتی جمہوریت کی تصویر دھندلی ہو سکتی ہے۔

مسلمانوں کی ایک اور جماعت جمعیت علمائے ہند نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک منتخب مسلم رکنِ پارلیمان ایوان کے اندر بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ نئے بھارت کی تصویر ہے۔

جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ اسپیکر کی یہ آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ رکن پارلیمان کے خلاف ایکشن لیں۔

ان کے بقول اس سے قبل ایوان میں بہت گرما گرم بحث ہوئی لیکن کسی بھی رکن نے کسی دوسرے کے خلاف ایسی غیر مہذب اور ناشائستہ زبان کا استعمال نہیں کیا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک اظہار ہے۔

مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے بھی رمیش بدھوڑی کے طرزِ عمل کی مذمت کی اور اسپیکر سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔


ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ممکن ہے کہ بی جے پی کی اخلاقیات میں ایسی شرم ناک حرکت کی گنجائش ہو لیکن یہ آئینی اور جمہوری قدروں کے منافی ہے۔

دانش علی نے ایک نیوز کانفرنس کرکے بدھوڑی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوان کے اندر ان کی لنچنگ ہوئی ہے۔

ان کے بقول رمیش بدھوڑی نے یہ دھمکی بھی دی کہ وہ ایوان کے باہر انہیں دیکھ لیں گے۔

دوسری جانب دانش علی کے مطابق جب ایک منتخب مسلم ایم پی ایوان میں محفوظ نہیں ہے تو عام مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے سوچا جا سکتا ہے۔

دانش علی نے اپنے خلاف کیے گئے تبصرے کو نفرت پر مبنی تقریر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر بدھوڑی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی تو وہ ایوان کی رکنیت سے استعفیٰ دینے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔

انہوں نے اسپیکر سے بدھوڑی کے رویے کی تحریری شکایت کی اورمتعدد دفعات کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے دانش علی کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

راہل گاندھی نے ان سے کہا کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ راہل گاندھی سمیت کانگریس کے متعدد رہنماؤں نے رمیش بدھوڑی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اسی دوران بی جے پی کے متعدد رہنماؤں نے رمیش بدھوڑی کی حمایت کی ہے۔

رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے اسپیکر کے نام ایک خط میں شکایت کی کہ دانش علی نے بدھوڑی کو بھڑکایا تھا اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے لیے توہین آمیز جملے کہے تھے۔

دانش علی کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس کی کوئی ویڈیو ہوگی، کوئی ثبوت تو ہوگا۔

ان کے مطابق نشی کانت کا الزام مراعات شکنی کے تحت آتا ہے لہٰذا اس کی بھی جانچ ضروری ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ وزیرِ اعظم کی حمایت میں بول رہے تھے جب کہ رمیش بدھوڑی نے خود وزیرِ اعظم کی توہین کی ہے۔

کئی جماعتوں نے اسپیکر اوم برلا کے نام خط لکھ کر اس معاملے میں سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بی ایس پی کی صدر مایاوتی نے بھی رمیش بدھوڑی ک طرزِ عمل کی مذمت کی،

مایاوتی نے ان کے بیان کو ایوان کی کارروائی سے حذف جب کہ پارٹی کی جانب سے نوٹس جاری کرنے کو معمولی کارروائی قرار دیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG