صحافی اور اینکر مبشر زیدی کہتے ہیں کہ یہ ناانصافی ہے۔
جبران ناصر نے لکھا کہ ریاست کم ہی ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے اس کے شہریوں میں اس پر اعتماد پیدا ہو، لیکن عوام کی بجائے قاتلوں کو سہارا دینا کبھی نہیں بھولتی۔
ایکٹوسٹ جلیلہ حیدر لکھتی ہیں کہ حیات پریغال جس نے نقیب اللہ محسود کے ناحق قتل پر احتجاج کیا آج مسنگ ہے اور کسی کیمپ میں ٹارچر سہہ رہا ہوگا جب کہ نقیب اللہ محسود اور 444 مزید لوگوں کے ماورائے عدالت قاتل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ضمانت دے دی ہے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر محمد تقی نے کہا کہ پشتون تحفظ تحریک کو اپنے جلسے بالکل نہیں روکنے چاہئیں تھے، یہ بہت بڑی غلطی تھی۔
قلم کار رامش فاطمہ نے عدلیہ کو مخاطب کر تے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کو یقین ہے کہ آپ کی ایجنسیاں جبری گمشدگیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ آپ راؤ انوار کو ضمانت پہ رہا کر سکتے ہیں۔ اب اپنے پیاروں سے کہیں کہ حیات پریغال سمیت باقی افراد کو بھی چھوڑ دیں۔ گھر والے صرف راؤ انوار کے نہیں، حقوق صرف راؤ انوار کے نہیں باقی سب کے بھی ہیں۔
رحمن بونیری نے لکھا کہ راو انوار کو ضمانت مل گئی۔ مشال کے قاتلوں کو ضمانتیں مل گئی۔ صوفی محمد کو ضمانت مل گئی۔ جنرل مشرف کو ضمانت مل گئی۔ احسان اللہ احسان سرکاری مہمان بن گیا۔ مگر ان والدین، بیواؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیٹوں کو بھی انصاف ملے گا جن کے اپنے بے دردی سے مارے گئے؟
سوشل میڈیا یوزر اور ہائی کورٹ کے وکیل سنگین خان کہتے ہیں کہ ناانصافی کہیں بھی ہو ہر جگہ انصاف کے لئے خطرہ ہوتی ہے۔ راو انوار کو ضمانت ملنا سے قانون کی حکمرانی کی قلعی کھل گئی ہے۔ جو لوگ اس ظلم اور زیادتی کے خلاف بول رہے ہیں وہ اٹھائے جاتے ہیں اور قاتلوں کو ضمانت مل رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر مقبول ایکٹوسٹ فرحان ورک کہتے ہیں کہ اگر راو انوار رہا ہو گیا تو میں پشتون تحفظ موومنٹ والوں سے معافي مانگوں گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ راو انوار ابھی بھی بری نہیں ہوا تو امید باقی ہے۔
ایسے ہی سوشل میڈیا پر مشہور شفاعت علی نے بھی ٹویٹ کیا کہ راؤ انوار کو ضمانت مل گئی۔ یعنی ہم بلا وجہ منظور پشتین کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔
صحافی خرم حسین لکھتے ہیں کہ آج ایک قاتل آزاد ہوگیا ہے اور انصاف قید۔