کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور کراچی پولیس کے افسر راؤ انوار اپنی روپوشی ختم کرکے سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے ہیں جس کے بعد انہیں عدالت کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔
راؤ انوار بدھ کو اچانک پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ سادہ لباس میں عدالتِ عظمیٰ پہنچے جہاں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نقیب اللہ قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا تھا۔
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت پہنچے تو انہوں نے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا جسے انہوں نے عدالت میں داخلے سے قبل اتار دیا۔ راؤ انوار کی گاڑی عدالت کے سامنے آ کر رکی اور ان کے ساتھ آنے والے کئی پولیس اہلکار بھی عدالت میں داخل ہوگئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے راؤ انوار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالت کو خط لکھنے کا جو طریقہ کار اپنایا، وہ ٹھیک نہیں۔ جس پر راؤ انوار کے وکیل کا کہنا تھا کہ راؤ انوار نے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے کوئی احسان نہیں کیا۔ بڑے دلیر بنتے تھے۔ اتنے دن کہاں رہے؟ چھپ کر بیٹھے رہے اور کہاں بھاگتے رہے؟ آپ نے عدالت پر اعتبار کیوں نہیں کیا؟ آپ تو خود مجرموں کو گرفتار کرنے والوں میں سے تھے۔
سماعت کے دوران راؤ انوار نے عدالت سے استدعا کی کہ ان سے تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے جس میں آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے اہلکار بھی شامل ہوں۔
تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے راؤ انوار سے تحقیقات کے لیے سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا حکم دیا جس میں خفیہ اداروں کا کوئی اہلکار شامل نہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار کے منجمد بینک اکاؤنٹس بحال کردیے جائیں تاکہ ان کے بچوں کو روزی روٹی مل سکے۔
سماعت کے دوران راؤ انوار کے وکیل نے سابق ایس ایس پی ملیر کی حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی حفاظتی ضمانت دی گئی تھی تاہم اب اسے مسترد کیا جاتا ہے۔
عدالت کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس نے راؤ انوار کو حراست میں لے کر سخت سکیورٹی میں عدالت سے اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقے ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع ایس ایس پی سکیورٹی ڈویژن کے دفتر منتقل کردیا گیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ سندھ پولیس کی ایک ٹیم آج ہی راؤ انوار کو 'پی آئی اے' کی پرواز کے ذریعے کراچی لے جائے گی جہاں ان سے مزید تفتیش کی جائے گی۔
نقیب اللہ محسود کو راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے 13 جنوری کو ایک مقابلے میں قتل کیا تھا جو کپڑے کا کاروبار کرنے کی غرض سے کراچی میں مقیم تھا۔
راؤ انوار نے نقیب کو دہشت گرد کمانڈر قرار دیا تھا لیکن بعد ازاں سوشل میڈیا اور سماجی حلقوں کے احتجاج کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں ان کا یہ دعویٰ اور پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہوگیا تھا۔
سپریم کورٹ نے نقیب اللہ کے قتل کا از خود نوٹس لیتے ہوئے 27 جنوری کو راؤ انوار کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا لیکن وہ عدالت کی جانب سے بار بار طلب کیے جانے کے باوجود لگ بھگ دو ماہ تک روپوش رہے تھے۔
اس دوران انہوں نے بیرونِ ملک فرار کی کوشش بھی کی تھی جسے اسلام آباد ایئرپورٹ کے حکام نے ناکام بنادیا تھا۔