ترکی میں ملکی کرنسی ’لیرا‘ ڈالر کے مقابلے میں شدید کمی کی شکار ہے جس سے افراط زر کی شرح بڑھ کر دہرے ہندسے تک پہنچ گئی ہے۔
اس صورت حال میں ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ترکی کے مرکزی بینک کو سود کی شرح بڑھانے کیلئے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ تاہم، مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ مالیاتی پالیسی پر صدر طیب ایردوان کی مضبوط گرفت کے باعث اسے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم اُٹھانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 40 فیصد گراوٹ دیکھی گئی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
ترک معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے مرکزی بینک کیلئے لازمی ہوگا کہ وہ سود کی شرح میں کم سے کم 400 بنیادی پوائنٹس کا اضافہ کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ افراط زر مزید بڑھنے کی صورت میں سود کی شرح میں دوبارہ اضافے کی ضرورت ہو گی۔
ماہرین کے مطابق، لیرا کی قدر میں بڑھتی ہوئی گراوٹ کی وجہ سرمایہ کاروں کا یہ خدشہ ہے کہ صدر اردوان کے بے پناہ اختیارات کے باعث مرکزی بینک صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے کوئی قدم اُٹھانے سے قاصر رہے گا۔ صدر اردوان متعدد بار سود کی شرح میں کسی اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس اقدام سے غریب لوگ شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔
ترکی کے وزیر خزانہ بیرات البائرک نے اس ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی کی معیشت اپنے آپ صورت حال سے نمٹتے ہوئے بہتری کی جانب گامزن ہے۔ وزیر خزانہ صدر اردوان کے داماد بھی ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اُن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت سود کی شرح بڑھانے کیلئے کوئی بڑا قدم اُٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ لیرا کی قدر میں مزید کمی سے عوام کا اعتماد مجروح ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنی بچت کو ڈالر میں تبدیل کرانا شروع کر دیں گے اور یوں ملکی کرنسی پر دباؤ بڑھنے سے معیشت مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی بینکوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ترکی کی معیشت اگلے برس انحطاط کا شکار ہو سکتی ہے جس سے صدر اردوان کی مشکلات میں ممکنہ طور پر اضافہ ہو گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ترکی کی بہت سی بڑی کمپنیاں قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور یوں سود کی شرح میں مزید اضافہ ملکی معیشت کو انحطاط کی طرف دھکیل سکتا ہے۔