انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی پچ کو ایک بار پھر اوسط سے کم قرار دے دیا ہے جس کے بعد وینیو پر انٹرنیشنل میچز کرانے پر پابندی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
آئی سی سی نے ایک سال میں دو مرتبہ راولپنڈی کی پچ کو ناقص قرار دیتے ہوئے ڈی میرٹ پوائنٹس جاری کر دیے ہیں۔ آئی سی سی کے مطابق پچ میں بالرز کے لیے کوئی مدد نہیں تھی، حتٰی کے میچ کے چوتھے اور پانچویں روز بھی پچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کی وجہ سے بلے بازوں نے رنز کے انبار لگا دیے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ایلیٹ پینل آف میچ ریفیریز کے نمائندے اور زمبابوے کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اینڈی پائیکرافٹ ، جو اس سیریز میں میچ ریفری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، انہوں نے اپنی رپورٹ میں اس پچ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے 'بیلو اوریج' یعنی اوسط درجے سے بھی زیادہ بری وکٹ قرار دیا۔
میچ ریفری نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پہلے ٹیسٹ میچ کی پچ فلیٹ تھی جس کی وجہ سے نہ تو پانچوں دن اس میں کوئی تبدیلی آئی نہ ہی اس سے بالرز کو کسی قسم کی مدد ملی۔ اسی وجہ سے اس پر بلےبازوں نے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی اور رنز کے انبار لگائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بالرز کے لیے مددگارنہ ثابت ہونے کے باعث وہ اس پچ کو آئی سی سی گائیڈ لائنز کے مطابق 'بیلو اوریج' قرار دے کر اسے ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیتے ہیں۔
آئی سی سی قوانین کے مطابق اگر کسی گراؤنڈ کو پانچ سال میں پانچ ڈی میرٹ پوائنٹس ملتے ہیں تو اس کو انٹرنیشنل میچز کی میزبانی سے ایک سال کے لیےمعطل کردیا جاتا ہے۔
میچ ریفری کی جانب سے تو اس پچ کو آئی سی سی کی پچ اینڈ آؤٹ فیلڈ مانیٹرنگ پراسس کے تحت ایک منفی پوائنٹ دیا گیا۔لیکن مجموعی طور پر نو ماہ کے دوران اس گراونڈ کے منفی پوائنٹس کی تعداد دو ہوگئی ہے۔
اس سے قبل رواں سال مارچ میں آسٹریلیا کے خلاف میچ کے بعد بھی آئی سی سی نے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی پچ کو اوسط درجے سے بھی کم کی پچ قرار دے کر منفی ریمارکس کے ساتھ ساتھ ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیا تھا۔
'بیلو اوریج 'یعنی اوسط درجے سے بھی کم پچ پر وینیو کو ایک ڈی میرٹ پوائنٹ ملتا ہے جب کہ خراب پچ پر تین اور ان فٹ پر پانچ ڈی میرٹ پوائنٹس ملتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کو اگر راولپنڈی میں موجود اسٹیڈیم میں آئندہ بھی میچز کا انعقاد یقینی بنانا ہے تو ہنگامی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے کیوں کہ مزید ڈی میرٹ پوائنٹس کا بوجھ یہ اسٹیڈیم برداشت نہیں کرسکے گا۔
یہ وہی وکٹ تھی جس پر پہلے ہی دن ، ایک ہی اننگز میں چار سینچریاں اور مجموعی طور پر پہلے تین دن میں سات سینچریاں اسکور ہوئی تھیں۔اس وکٹ پر پانچوں دن ملا کر بلے بازوں نے 1187 رنز بنائے جب کہ بالرز کے حصے میں صرف 14 وکٹیں آئیں۔
انگلینڈ نے اپنی پہلی اننگز میں 657 رنز بنائے تھے جب کہ میچ کے پہلے ہی روز انگلینڈ نے 506 رنز بنا کر ٹیسٹ کرکٹ میں ایک ہی دن میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
پاکستان نے بھی اپنی پہلی اننگز میں 579 رنز بنائے تھے۔ انگلینڈ نے دوسری اننگز میں 264 رنز سات کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈیکلیئر کر کے پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے 343 رنز کا ہدف دیا تھا، لیکن پاکستان کی پوری ٹیم 268 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔
میچ کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے تو اس وکٹ کی تیاری پر سوالات اٹھائے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ مبصرین نے بھی اس پر خوب تنقید کی تھی۔
رمیز راجہ کے بقول اس پچ کو دیکھ کر انہیں شرم آرہی تھی کیوں کہ ایسی وکٹیں ٹیسٹ کرکٹ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہیں۔