پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے 20 ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں اور متاثرین میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔
اس بات کا انکشاف ملک میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے کیا ہے۔
پاکستان سے دنیا بھر میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کوئی نیا موضوع نہیں۔ لیکن، گزشتہ چند دہائیوں سے اس میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
حکام کے مطابق، پاکستان سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو عام طور پر زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کے لیے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کے لئے اسمگل کیا جاتا ہے۔ تاہم، ان کے بارے میں حقائق جمع کرنا بے حد مشکل کام ہے۔
ان اسمگلرز کا شکار ہونے والی خواتین کی عمریں 2 سے 50 سال کے درمیان دیکھی گئی ہیں۔
حکام کے مطابق، ایسے اسمگلرز صرف اجنبی ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ خاندان کے فرد، دوست یا قریبی جاننے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد کو ملازمت، شادی، بہتر معاشی حالات جیسے سہانے خواب دکھا کر اسمگلنگ پر آمادہ کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے شادی کے بہانے نوجوان لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے کی بھی ناکام کوششیں کی گئیں، جس کے بعد حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے کئی چینی باشندوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ قائم کر رکھا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے واقعات سامنے آنے کی وجوہات کیا ہیں؟
ماہرین کے خیال میں انسانی اسمگلنگ ایک پیچیدہ معاشرتی مسئلہ ہے، جس میں کئی عوامل کا عمل دخل ہے اور پاکستان جیسے ملک میں اس کی بنیادی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، معاشی سست روی اور غیر محفوظ سرحد ہے۔ جس سے انسانی اسمگلرز کا کام کافی آسان ہوجاتا ہے۔
پاکستان کئی دہائیوں سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، جبکہ غربت کی شرح زیادہ اور انسانی معیار زندگی کے لحاظ سے بھی اس کا شمار دنیا کے پست ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 20 کروڑ 70 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس طرح یہ ملک دنیا کے گنجان ترین 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جبکہ آبادی میں نوجوانوں کی شرح 60 فیصد کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
غربت زدہ علاقوں سے نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی لالچ دے کر ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے اور یہیں سے اس مکروہ کاروبار کا آغاز ہوتا ہے۔ منظم گروہ لوگوں سے اُن کی جمع پونجی حاصل کر کے غیر قانونی راستوں کے ذریعے پاکستان سے ایران اور پھر وہاں سے ترکی کے راستے یورپ میں داخل کراتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، انسانی اسمگلرز کے گروہ اتنے مُنظم طریقے سے کام کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے یورپ تک کے زمینی راستے کے سفر میں آنے والے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اکثر اداروں کے اہلکاروں سے ساز باز کر کے اُنہیں یورپ تک بھیجنے میں باآسانی کامیاب ہوجاتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملکی قانون کیوں کمزور دکھائی دیتا ہے؟
پاکستان نے مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر 2018 ہی میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔ جن میں سے ایک انسداد مہاجرین ایکٹ 2018، جبکہ دوسرا انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔
ان دو قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، ایمیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔
ان قوانین کی روشنی میں ملک سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں رکھی گئی ہیں، جبکہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے 'اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل' کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
ایف آئی اے نے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے جو ایجنسی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
اس فہرست میں متعدد خواتین بھی شامل ہیں۔ جو اس غیر قانونی کاروبار میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہیں۔
ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، انسانی اسمگلنگ کے جرم میں مطلوب افراد کی 'ریڈ بک' میں شامل 43 اسمگلرز کا تعلق پنجاب، 31 کا اسلام آباد، سندھ سے 12 اور بیرون ملک ملزمان کی تعداد 12 ہے۔
ایف آئی اے نے ایک سال کے عرصے کے دوران 19 انتہائی مطلوب افراد کو گرفتار کیا ہے جن کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔
اسی طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران تین لاکھ سے زائد پاکستانی مختلف ممالک سے ڈی پورٹ ہو کر پاکستان واپس بھجوائے گئے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے علاوہ اومان، ایران، ترکی اور اب یونان میں بھی دفاتر قائم کیے جا رہے ہیں، تاکہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد پر نظر رکھی جائے۔
ایف آئی اے کے سابق افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قوانین موجود نہ ہونا مسئلہ نہیں، بلکہ اصل مسئلہ ان پر عملدرآمد اور اطلاق کا ہے۔
ملکی سرحدی علاقوں میں موجود چیک پوسٹوں میں ایسے ایماندار افسران اور اہلکار موجود ہوں، جو پیسے لے کر انسانی اسمگلروں کو راستہ نہ دیں، بلکہ انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
سابق افسر کے مطابق بڑے شہروں میں لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے والے ان ایجنٹوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے، جو کئی جگہوں پر کسی لائسنس کے بغیر دھڑلے سے کام کررہے ہیں۔
اُن کے مطابق اگر کچھ لوگوں کو گرفتار کیا بھی جاتا ہے، تو ان کے خلاف مقدمہ اتنا کمزور بنایا جاتا ہے یا پھر شہادتیں اکھٹی نہیں کی جاتیں، جس سے وہ قانون کی گرفت سے نکلنے میں باآسانی کامیاب ہوجاتے ہیں۔
انسانی اسمگلرز کے لیے خواتین اور بچے آسان شکار کیوں؟
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ہیومن ٹریفکنگ کا شکار ہونے والوں میں سے بیشتر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ماہرین اس کے پیچھے معاشرے میں خواتین کی معاشی بدحالی اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والا عمومی سلوک کو گردانتے ہیں۔
خواتین سے متعلق صوبہ سندھ میں قائم کمیشن کی چیئرپرسن نزہت شیریں کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ خواتین سے متعلق حکومتی ترجیحات ہیں، جو کہیں نظر نہیں آتیں۔
نزہت شیریں کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں تو وہ ادھورے بنتے ہیں، جو قلیل وسائل میں خواتین کی مدد کے کیا قابل ہوں۔ وہ اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے۔
نزہت کے مطابق، غربت اور پھر بعض خواتین گھریلو تشدد سے تنگ آکر کہیں بھی جانے کو تیار ہوجاتی ہیں اور پھر کئی کیسز میں انسانی اسمگلرز اُنہیں جھانسا دے کر غلط کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
نزہت شیریں کے مطابق انہیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نسوانی ترقی حکومت کی ترجیحات میں بہت نیچے ہے۔ ان کے مطابق، خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کی روک تھام کرنے کے لیے ہمیں انہیں طاقتور بنانے والے نچلے اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا۔
ماہرین اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا، دولت کا ارتکاز روکنا، سماجی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پھر اس سے متعلق سخت قوانین بنانا ہوں گے۔