برطانوی ماہرین فلکیات نے کائنات کے بڑے اسرار ' بلیک ہولز' کا ایک انوکھا نظارہ کیا ہے، جب انھوں نے ایک بلیک ہول یا سیاہ سوراخ کو انگارہ جیسا سرخ ہوتا دیکھا ہے، جس میں ایک ہزار سورج کے برابر چمک تھی۔
بین الاقوامی ماہرین فلکیات کے مطابق انھوں نے ہماری کہکشاں 'ملکی وے' میں موجود ایک بلیک ہول سے خارج ہونے والی زبردست توانائی کی سرخ روشنیوں کو دیکھا ہے۔
نئی تحقیق کے مطابق فلک شناسی کے ماہرین نے ایک ((V404Cygni سیگنائے نامی بلیک ہول کا مشاہدہ کیا ہے، جس نے گردش کرتے ہوئے ایک ستارے سے بڑی مقدار میں مادہ ہضم کیا تھا اور اس عمل کے دوران بلیک ہول سے انتہائی طاقتور روشنیوں کا اخراج ہوا تھا۔
یہ متاثر کن نظارہ 2015ء میں جولائی میں دریافت کیا گیا تھا اور سائنس دانوں نے تب اس دھماکا خیز مواد کے پھٹنے کے بارے میں مطالعہ کیا تھا۔
محققین کے مطابق یہ زبردست چمک حالیہ برسوں میں بلیک ہولز سے نکلنے والی زیادہ چمکدار روشنیوں میں سے تھی۔
زبردست روشنیوں کے نظارے کی تصاویر 'الٹرا کیم فاسٹ امیجنگ کیمرے' سے حاصل ہوئی تھیں، جسے کینری جزائر میں ولیم ہرشیل دوربین پر دو ہفتے کے لیے نصب کیا گیا تھا۔
ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی کے محققین کی طرف سے قیادت کی جانے والی تحقیق کے مطابق یہ زبردست روشنیاں وی چار سو چار سیگنائے نامی بلیک ہولز سےخارج ہوئی تھی، جو ہماری زمین سے سات ہزار آٹھ سو نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔
یہ ہماری کہکشاں میں نشاندہی کیے جانے والا سب سے خاص بلیک ہول تھا اور اس وقت واضح ظاہر ہوتا ہے، جب یہ فعال طور پر ارد گرد کے مواد کو کھا رہا ہے۔
ماہرین فلکیات کی طرف سے اس مخصوص بلیک ہول کا مشاہدہ کیا گیا تھا، جب وہ ایک نزدیکی ستارے کو ہڑپ کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر روشن ہوا تھا۔
یہ روشنیاں پل کے ایک حصے سے زیادہ جاری نہیں رہیں تھیں بلکہ، بلیک ہول کا بھڑکنا بہت کم مدت کے لیے تھا جو تقریباً ایک اوسط انسانی آنکھ کی پلک چھپکنے سے دس گنا زیادہ تیزی سے رونما ہوئی تھیں۔
تحقیق کے مطابق بلیک ہول کے سوراخ سے جو مواد نہیں نگلا گیا تھا، وہ باہر نکل گیا تھا، جس نے تیز سرخ چمک پیدا کی تھی۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر پوشک گاندھی نے کہا ''یہ تیز سرخ چمک بلیک ہول کے کھانے کے سوراخ کی چوٹی پر زبردست پائی گئی''۔
جبکہ برطانوی ماہرین فلکیات کے مطابق ہر ایک چمک انتہائی شدید تھی، جو ایک ہزار سورج کی توانائی کے برابر طاقتور تھی۔
علم ہیئت کے ماہرین پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ بلیک ہولز نا صرف ہضم کرتے ہیں بلکہ ڈکارتے یا خارج بھی کرتے ہیں۔ اور امیجنگ تصاویر نے سرخ روشنی کے منبع کا واضح اشارہ اسی طرف کیا ہے، جہاں یہ بلیک ہولز موجود ہو سکتا تھا۔
ڈاکٹر پوشک گاندھی جو ساؤتھمپٹن سے وابستہ ہیں انھوں نے کہا کہ ''اس روشنی کی انتہائی تیز رفتاری نے ہمیں یہ بتایا کہ جس خطے سے روشنیوں کا اخراج ہوا تھا وہ جگہ مواد سے بھری ہوئی ہو گئی''۔
ڈاکٹر گاندھی نے مزید کہا کہ ان روشنیوں کے رنگ، رفتار اور طاقت کے بارے میں حاصل ہونے والے تمام اشاروں کو ایک ساتھ دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ، ان روشنیوں کا اخراج بلیک ہول جیٹس (بلیک ہولز سے دھار کی شکل میں خارج ہونے والے مادے) کے مرکز سے ہوا تھا، اگرچہ اس جیٹس کا اصل اب بھی نامعلوم ہے تاہم خیال ہے کہ مضبوط مقناطیسی میدان اس کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ تحقیق یونیورسٹی ساؤتھمپٹن، یونیورسٹی شیفلڈ، یونیورسٹی واروک کے محققین نے مل کر کی ہے جنھیں یورپ، امریکہ، متحدہ امارات اور بھارت کا تعاون بھی حاصل تھا۔
مشاہدہ رائل فلکیاتی سوسائٹی کے ماہانہ نوٹس میں شائع ہوا ہے۔ اس مطالعے کو پراسرار بلیک ہول کی تفہیم کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بلیک ہولز کائنات کا ایک اسرار :
بلیک ہولز دراصل ہماری کائنات میں انتہائی دور دراز فاصلوں پر موجود کہکشاؤں میں بنتے ہیں۔ اور یہ تب بنتے ہیں جب کوئی ستارہ اپنے ہی وجود میں منہدم ہوتا ہے انھیں مردار ستارہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
خلا میں بلیک ہولز بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کی جسامت بھی مختلف ہوتی ہے۔
بلیک ہولز دراصل مادے کی بے پناہ کثیف اور مرتکز حالت ہے جس کی وجہ سے اس کی کشش ثقل انتہائی اعلیٰ ہو جاتی ہے اور یہ ستاروں کی طرح روشنی پیدا کرنے کے بجائے اپنی تجاذبی کشش کی حد میں آنے والی ہر چیز کو اپنے اندر ہضم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس عمل کے دوران بلیک ہولز میں گرنے والا اجسام یا مادوں سے تابکاری شعاعیں نکلتی ہیں اور یہ جلتا ہوا مواد بلیک پولز کے سوراخ سے بیرونی خلا میں ایک مخصوص سمت میں دھار کی شکل میں بہنے لگتا ہے اور اس دھار کو 'جیٹس' کا نام دیا جاتا ہے۔
بلیک ہولز کی کشش ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ اپنی دسترس میں موجود ہر چیز کو اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں اور سیاروں اور ستاروں جیسے اجسام فلکیات کو مسلسل نگلتے رہتے ہیں حتیٰ کہ بلیک ہولز سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پاتی ہے۔
بلیک ہولز روشنی جذب کر لیتے ہیں اسی لیے دکھائی نہیں دیتے ہیں یہ تاریک ہیں اور دیگر اجسام سے ایک ارب گنا مدھم ہیں۔ انھیں دیکھنا ممکن نہیں ہے۔
بلیک ہولز کی روشنی جذب کرنے کی خاصیت کی وجہ سے اسے بلیک ہولز 'تاریک شگاف 'کہا جاتا ہے۔
سائنسی نظریے کے مطابق بلیک ہولز کی موجودگی کا پتہ ان کے قریب موجود کہکشاؤں، ستاروں، خلائی دھند یا گرد پر اثرات کے ذریعے لگایا جاتا ہے یا پھر ان کا مشاہدہ بالواسطہ طور پر صرف اس وقت کرنا ممکن ہے جب بلیک ہولز آس پاس کے موجود اجسام کو نگلتا ہے اور وہ تابکاری شعاعیں پیدا کرتے ہیں۔
آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافت کے مطابق اگر کسی جگہ پر بے انتہا کمیت رکھی جائے گی تو وہاں خم خلا میں چھید کی صورت میں پیدا ہو گا اور وقت جامد ہو جائے گا جبکہ بعد میں بلیک ہولز کی دریافت نے اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
آئن اسٹائن کے مطابق بلیک ہولز میں جا گرنے والا کوئی بھی جسم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا اور وہ بلیک ہولز سے واپس نکلنے کے قابل نہیں رہے گا۔