|
امریکہ کے تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ری پبلکن صدارتی امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اتوار کو ٹرمپ فلوریڈا میں انٹرنیشنل گولف کلب ویسٹ پام بیچ میں موجود تھے اور گولف کھیل رہے تھے۔
قانون نافذ کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ سیکریٹ سروس نے جھاڑیوں یں ایک شخص کو رائفل کے ساتھ دیکھا اور مشتبہ حملہ آور پر فائر کیا۔
ان کے مطابق مشتبہ شخص جھاڑیوں سے فرار ہوگیا اور بعدازاں اسے ہائی وے سے حراست میں لے لیا گیا۔
ٹرمپ پر پہلا قاتلانہ حملہ
رواں برس جولائی میں ریاست پنسلوینیا میں ہونے والی ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلی میں ایک مسلح شخص نے ان پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں سابق صدر کے کان پر زخم آیا تھا۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق صدور، منتخب صدور اور امیدواروں پر 15 قاتلانہ ہوئے ہیں جن میں سے پانچ میں اموات ہوئی ہیں۔
یہاں امریکی رہنماؤں پر ہونے والے کامیاب اور ناکام حملوں کی تفصیل دی جارہی ہے۔
ابراہم لنکن، سولہویں امریکی صدر
ابراہم لنکن وہ پہلے امریکی صدر تھے جو قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے تھے۔ 14 اپریل 1865 کو واشنگٹن ڈی سی کے فورڈ تھیٹر میں لنکن کو ایک حملہ آور نے گولی مار دی تھی۔ گولی لنکن کے سر کے پچھلے حصے پر لگی تھی اور حملے کے اگلے دن ان کی موت ہو گئی تھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ لنکن پر قاتلانہ حملے کی وجہ سیاہ فام افراد کے حقوق کو سپورٹ کرنا تھی کیوں کہ حملے سے دو سال قبل ہی انہوں نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
ابراہم لنکن کی موت کے بعد ان کے نائب صدر اینڈریو جانسن نے صدارت کی ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔ لنکن پر حملہ کرنے والے شخص جان ولکس بوتھ کو 26 اپریل 1865 کو ورجینیا میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
جیمز گارفیلڈ، بیسویں امریکی صدر
جیمز گارفیلڈ قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے والے دوسرے امریکی صدر تھے۔ صدارت سنبھالنے کے صرف چھ ماہ بعد انہیں واشنگٹن کے ایک ٹرین اسٹیشن پر دو جولائی 1881 کو چارلس گیٹو نامی ایک حملہ آور نے گولی ماری تھی۔
گارفیلڈ اس حملے کے بعد کئی ہفتوں تک وائٹ ہاؤس میں زیرِ علاج رہے لیکن یہ گھاؤ ستمبر 1881 میں ان کی جان لے گیا۔ گارفیلڈ کی موت کے بعد ان کے نائب صدر چیسٹر آرتھر نے صدارت سنبھالی۔
جیمز گارفیلڈ پر حملہ کرنے والے چارلس گیٹو مجرم قرار پائے اور انہیں جون 1882 میں سزائے موت دی گئی۔
ولیم مکنلی، 25 ویں امریکی صدر
امریکہ کے 25 ویں صدر ولیم مکنلی کو چھ ستمبر 1901 کو ریاست نیویارک کے شہر بفلو میں اس وقت گولی ماری گئی جب وہ ایک خطاب کے بعد لوگوں سے مل رہے تھے۔ حملہ آور نے انتہائی قریب سے ان کے سینے میں دو گولیاں ماریں۔ چند روز زیرِ علاج رہنے کے بعد 14 ستمبر 1901 کو مکنلی کی موت ہو گئی تھی اور ان کے نائب صدر تھیوڈور روزویلٹ نے ان کی ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔
ولیم مکنلی پر حملہ کرنے والا لیون ایف زولگوز ایک 28 سالہ بے روزگار نوجوان تھا جس نے اعترافِ جرم بھی کیا اور ٹرائل مجرم قرار پانے کے بعد اسے الیکٹرک کرسی پر بٹھا کر 29 اکتوبر 1901 کو سزائے موت دے دی گئی۔
فرینکلن ڈی روز ویلٹ، امریکہ کے 32 ویں صدر
فروری 1933 میں امریکہ کے نو منتخب صدر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ میامی میں ایک اوپن کار میں خطاب کر رہے تھے کہ اس دوران فائرنگ ہوئی۔
فائرنگ کے اس واقعے میں روز ویلٹ تو بچ گئے مگر شکاگو کے میئر اینٹون سرمک گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گئے۔
حملہ آور جوسیپے زنگارا کو بعدازاں موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔
ہیری ایس ٹرومین، 33 ویں امریکی صدر
یہ واقعہ 1950 میں پیش آیا جب صدر ٹرومین وائٹ ہاؤس کے قریب صدارتی مہمان خانے بلیئر ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔ اس دوران دو مسلح افراد زبردستی اندر داخل ہو گئے۔
صدر ٹرومین اس حملے میں بچ گئے، تاہم فائرنگ کے تبادلے میں وائٹ ہاؤس کا ایک پولیس اہلکار اور ایک حملہ آور مارا گیا۔
حملہ آور کی شناخت بعدازاں اوسکر گلازو کے نام سے ہوئی تھی جسے سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ بعدازاں صدر ٹرومین نے یہ عمر قید میں تبدیل کر دی تھی۔
سن 1979 میں صدر جمی کارٹر کے دورِ صدارت کے دوران گلازو کو رہا کر دیا گیا تھا۔
جان ایف کینیڈی، 35 ویں امریکی صدر
جان ایف کینیڈی کو نومبر 1963 میں ایک حملہ آور نے چھپ کر رائفل سے اس وقت گولی ماری جب وہ خاتونِ اوّل کے ہمراہ ایک کھلی گاڑی میں ڈیلس شہر کا دورہ کر رہے تھے۔ کینیڈی کو اسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اور کچھ ہی دیر بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔
جان ایف کینیڈی کے نائب صدر لنڈن بی جانسن نے ان کی جگہ صدارت کا منصب سنبھالا تھا اور وہ واحد امریکی صدر ہیں جن کی حلف برداری جہاز میں ہوئی تھی۔
جان ایف کینیڈی پر حملہ کرنے والے شخص لی ہاروی آسولڈ کو پولیس نے چند گھنٹوں بعد ہی گرفتار کر لیا تھا اور جب حملہ آور کو پولیس ہیڈ کوارٹر سے جیل منتقل کیا جا رہا تھا تو اس دوران ایک شخص نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
جیرلڈ فورڈ، 38 ویں امریکی صدر
جیرلڈ فورڈ پر 1975 میں دو قاتلانہ حملے ہوئے اور وہ خوش قسمتی سے دونوں میں محفوظ رہے۔ پہلی مرتبہ ان پر حملہ کرنے والے شخص کی پستول سے گولی نہیں چلی اور حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا۔ دوسری مرتبہ ان پر ایک خاتون نے گولی چلائی مگر فورڈ محفوظ رہے۔ دونوں حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ حملہ آور خاتون کو 2007 اور دوسرے حملہ آور کو 2009 میں رہائی ملی تھی۔
رونلڈ ریگن، 40 ویں امریکی صدر
مارچ 1981 میں رونلڈ ریگن واشنگٹن ڈی سی میں ایک خطاب کے بعد اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے جب مجمع میں موجود ایک شخص جان ہنکلی جونیئر نے ان پر فائرنگ کی۔ ریگن کے ساتھ تین دیگر افراد کو بھی گولیاں لگی تھیں۔ ریگن علاج کے بعد صحت یاب ہو گئے تھے۔
حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم ٹرائل کے دوران جیوری نے اسے دماغی طور پر صحت مند نہ ہونے کی بنیاد پر قصور وار قرار نہیں دیا اور اسے مینٹل اسپتال بھیج دیا گیا تھا۔
جارج ڈبلیو بش، 43 ویں امریکی صدر
جارج ڈبلیو بش 2005 میں جیارجیا کے دارالحکومت تبلیسی میں اپنے جارجین ہم منصب میخائل ساکاشویلی کے ہمراہ ایک ریلی میں شریک تھے جب ایک دستی بم دونوں کی طرف پھینکا گیا۔
دونوں صدور ایک بلٹ پروف بیریئر کے پیچھے تھے۔ کپڑے میں لپٹا دستی بم ان سے 100 فٹ کے فاصلے پر گرا لیکن پھٹا نہیں اور دونوں محفوظ رہے۔ حملے کے الزام میں ایک شخص کو عمر قید کی سزا ہوئی۔
رابرٹ ایف کینیڈی، صدارتی نامزدگی کے امیدوار
رابرٹ ایف کینیڈی سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے بھائی اور نیویارک سے سینیٹر تھے۔
رابرٹ کینیڈی صدارتی امیدوار بننے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں 1968 میں اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا گیا جب وہ ریاست کیلی فورنیا کے پرائمری میں فتح کے بعد لاس اینجلس ہوٹل میں خطاب کر رہے تھے۔ رابرٹ پر اس حملے سے پانچ سال قبل ان کے بھائی جان ایف کینیڈی بھی قاتلانہ حملے میں مارے گئے تھے۔
جارج سی والس
جارج والس ریاست الاباما کے گورنر تھے۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل تھے جب 1972 میں انتخابی مہم کے دوران ریاست میری لینڈ میں ان پر فائرنگ ہوئی۔ جارج والس اس حملے کے بعد جزوی طور پر مفلوج ہو گئے تھے۔ ان پر فائرنگ کرنے والے شخص کو کئی برس کی قید کے بعد 2007 میں رہا کر دیا گیا تھا۔
اس خبر سے بعض معلومات خبر رساں ادارے رائٹرز سے لی گئی ہیں۔