معروف کشمیری شاعر، مصنف، مترجم اور نقاد عبدالرحمٰن راہی پیر کی صبح سرینگر میں واقع اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 97 برس تھی اور وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔
عبدالرحمٰن راہی کا شمار کشمیر کی نمایاں ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ پچھلی پون صدی کے دوران کشمیر کے ایک نمایاں شاعر اور لیجنڈ کی حیثیت سے ابھرے۔ راہی نے اپنی غزلوں اور اشعار میں کشمیر کی روایات اور ثقافت کی بھرپور عکاسی کی ہے۔
کشمیر میں ہونے والے کشت و خون اور حالات کی عکاسی بھی ان کے کلام کا حصہ ہے۔ ان کی ایک کشمیری نظم کا شعر (ترجمہ) "وہ کون تھا، کیوں مارا گیا، اُس کی لاش کہاں رکھی گئی" بہت مقبول اور زبان زدِ عام ہوا تھا۔
عبدالرحمٰن راہی کی شاعری نئے افکار و خیالات سے مزین ہے۔ ان کے لکھے ہوئے نغمے کئی نامور گلوکاروں نے بھی گائے ہیں۔
چھ مئی 1925 کو سرینگر کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے عبدالرحمٰن راہی نے ابتدائی تعلیم ایک مقامی اسکول سے حاصل کی تھی۔ پھر یونیورسٹی آف کشمیر سے انگریزی اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔
بعد ازاں وہ کشمیر یونیورسٹی میں ہی 1953 میں فارسی کے لیکچرار تعینات ہوئے اور پھر اسی درس گاہ میں شعبۂ کشمیری کے سربراہ بھی بنے۔
راہی نے اپنی ادبی زندگی کا باضابطہ آغاز ترقی پسند مصنفین کی ایسوسی ایشن میں شامل ہوکر کیا تھا۔ وہ اس کے جنرل سیکریٹری بھی رہے اور ادبی جریدے 'کونگہ پوش' (زعفرانی پھول) کے کچھ شماروں کی تدوین بھی کی۔
وہ سرینگر سے شائع ہونے والے اردو روزنامے 'خدمت' میں معاون مدیر رہے اور دہلی میں اردو روزنامہ 'آج کل' کے ادارتی بورڈ کے ممبر بھی رہے۔
عبدالرحمٰن راہی کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں شعری مجموعات کے ساتھ نثر نگاری بھی شامل ہے۔ انہوں نے کشمیری زبان کے رسم الخط کی ترویج کے لیے بھی کام کیا۔
مترجم کی حیثیت سے انہوں نے بابا فریدالدین کی صوفی شاعری کا پنجابی سے کشمیری میں ترجمہ کیا جو کشمیر میں کافی مقبول ہوا۔
عبدالرحمٰن راہی کو 2008 میں ان کے شعری مجموعے 'سیاہ رود جیرن منز' (سیاہ بوندا باندی) کے لیے بھارت کے سب سے بڑے ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ پہلے اور واحد کشمیری قلم کار ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ اس کے علاوہ انہیں ساہتیہ اکادمی اور پدم شری ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
راہی کے لواحقین میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ان کی نمازِ جنازہ پیر کی سہ پہر سرینگر کے علاقے نوشہرہ میں ادا کی گئی جس میں درجنوں افراد نے شرکت کی۔
ان کی موت پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے افسوس اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ کے سربراہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی ان کے انتقال پر تعزیت کی ہے۔