بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی طرف سے گزشتہ دنوں متنازع تین زرعی قوانین کو واپس لینے کے اعلان کے بعد نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا جموں و کشمیر کی آئینی نیم خودمختاری کے خاتمے کا فیصلہ بھی واپس ہو گا؟
اگرچہ نریندر مودی حکومت نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ ریاست میں انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی اور دوسری انتظامی تبدیلیوں کی تکمیل اور اسمبلی انتخابات کرانے کے بعد جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ البتہ یہ واضح نہیں کہ لداخ خطہ، جو اب ایک وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقہ ہے، اس کی آئندہ انتظامی حیثیت کیا ہو گی۔
نریندر مودی کے اس اعلان کے بعد کہ زرعی قوانین کو پارلیمنٹ کے ذریعے واپس لیا جائے گا۔ جموں و کشمیر کے بعض سیاسی حلقوں میں یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ وہ دفعہ 370 کو، جس کے تحت ریاست کو بھارت کے مرکز میں ایک خصوصی پوزیشن حاصل تھی، بحال کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق آئینی شق کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے اقدامات سے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے خلاف سابق ریاست کے تینوں حصوں میں عوامی سطح پر مزاحمت بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ جن حلقوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا، وہ بھی اب تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ نریندر مودی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کا خاتمہ کیا تھا جس کے بعد ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے براہِ راست وفاق کا زیرِ کنٹرول علاقہ بنا دیا تھا۔
'گھڑی کی سوئیاں پیچھے گھمائی جا سکتی ہیں'
بھارتی کشمیر کے ایک سابق جج اور حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی کہتے ہیں کہ ''ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے غیر آئینی تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ان فیصلوں کو واپس لے بلکہ جموں و کشمیر کی تنظیم نو ایکٹ اور ان تمام قوانین کو بھی منسوخ کرے جو پانچ اگست 2019 کے بعد غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر ریاستی عوام پر مسلط کیے گئے تھے۔
ان کے بقول نئی قانون سازی کا مقصد علاقے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور لوگوں کو بے اختیار بنانا تھا۔
انہوں نے وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے متنازع زرعی قوانین کو واپس لینے کے اچانک اعلان کو "تکبر کی سیاست سے کنارہ کشی اور مشاہدہ باطن اور تعینِ نو کی طرف لوٹنا" قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ''اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے گھمایا جا سکتا ہے۔ فیصلوں کو حالات کے تقاضوں کے مطابق ہمیشہ ایک نئی شکل دی جا سکتی ہے۔''
انہوں نے کہا کہ حکومت پانچ اگست 2019 کے فیصلوں پر ازسرِنو غور کر کے انہیں واپس لے یا پھر سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں کالعدم قرار دینے میں کسی قسم کے روڑے نہ اٹکائے۔
البتہ نریندر مودی حکومت کا کہنا ہے کہ آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد کشمیر کے عوام کو ترقی کا موقع ملے گا۔
تاہم جسٹس (ر) حسنین مسعودی کا کہنا ہے کہ ''19 نومبر کو نریندر مودی نے جو اعلان کیا وہ وزیرِ اعظم اور وفاقی حکومت کی طرف سے اس احساس کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ اہم مسائل پر اکثریتی قانون سازی کی طاقت پر آگے بڑھنے سے پہلے، مجوزہ قانون سازی کو اچھی طرح سے جمہوری طریقوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔''
سابق جج کے بقول ''عوامی اور قومی اہمیت کے معاملات پر قانون سازی سے پہلے ان پر وسیع تر بحث اور اس پر غور و خوض کے لیے انہیں عوام کے سامنے لانا ناگزیر ہے۔''
'جموں و کشمیر کو توڑنے کا مقصد ووٹروں کو خوش کرنا تھا'
ادھر بھارتی کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ جموں و کشمیر کو توڑنے اور بے اختیار بنانے کے لیے بھارتی آئین کے ساتھ کی گئی بے حرمتی کا مقصد ووٹروں کو خوش کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ غلطی کو سدھارا جائے گا اور جموں و کشمیر میں اگست 2019 سے جو ''غیرقانونی'' تبدیلیاں لائی گئی ہیں انہیں واپس لیا جائے گا۔
البتہ وائس آف امریکہ نے کئی عام شہریوں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ بعض کشمیری سیاسی رہنماؤں کی طرف سے اس امید کا اظہار حقیقت شناسی سے انحراف ہے۔
عبدالمجید ڈار نامی شہری کا کہنا تھا کہ ''نریندر مودی آرٹیکل 370 کو بحال کر دیں گے مجھے تو یہ دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے نہ ہی سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں آنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ کیوں فراموش کر رہے ہیں کہ آرٹیکل 370 ایک خاص مقصد کے تحت ختم کیا گیا تھا۔''
'زرعی قوانین اور دفعہ 370 دو مختلف معاملات ہیں'
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چند سیاسی رہنما امید کے خلاف امید کر رہے ہیں۔
ان کے بقول زرعی قوانین اور دفعہ 370 دو مختلف معاملات ہیں بلکہ یکسر متضاد اسکیمیں ہیں۔ جہاں تک زرعی قوانین کا تعلق ہے، وہ نظریاتی طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یا سنگھ پری وار میں پیوست نہیں تھے۔ زرعی قوانین کسانوں کے ایک وسیع طبقے کے نزدیک غیر مقبول تھے بلکہ انہوں نے ان کے خلاف شدید مزاحمت دکھائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی تمام تر کوششوں، دھونس اور دباؤ کے باوجود کسانوں کی ناراضی کم نہیں ہو سکی تھی۔ ان کے بقول اترپردیش اور بھارتی پنجاب میں جلد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ زرعی قوانین کی سب سے زیادہ مخالفت شمالی ریاستوں ہی میں ہوئی تھی۔ لہٰذا بی جے پی چاہتی ہے کہ اس عوامی مخالفت کا خاتمہ ان انتخابات اور ملک میں 2024 میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے پہلے ہو۔
ڈاکٹر نور احمد بابا کا مزید کہنا تھا کہ اس کے برعکس آرٹیکل 370 کو ہٹانا بی جے پی اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ہندوتوا نظریے کی تکمیل کا ایک بنیادی ایجنڈا تھا۔ اس کے علاوہ اس میں ان کے لیے انتخابی فائدہ بھی ہے اور وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ مودی پانچ اگست 2019 کے فیصلے کو مسترد کر سکتے ہیں وہ امید کے خلاف امید کر رہے ہیں۔
البتہ جسٹس (ر) مسعودی کو اس استدلال سے انکار نہیں کہ کشمیری عوام اور ان کی قیادت نے پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے خلاف منظم اور بھرپور مزاحمت نہیں دکھائی۔
ان کے بقول کسانوں کی منظم، مضبوط اور لمبی جدوجہد میں جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق پنہاں ہے۔