برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع اپنے سفارت خانے کے عملے کی تعداد نصف حد تک کم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق سفارت خانے کے عملے میں کمی کا منصوبہ وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کی ہدایت پر بنایا جا رہا ہے جس پر عمل درآمد آئندہ مہینے سے شروع ہوسکتا ہے۔
'رائٹرز' کو ذرائع نے بتایا ہے کہ سفارت خانے کے عملے میں کمی 2020ء سے پہلے متوقع نہیں تھی لیکن اب ایک سال قبل ہی اس منصوبے پر عمل شروع ہونے کی توقع ہے۔
کابل سے نصف سے زائد سفارتی عملے کے انخلا کے امکان پر کئی حلقوں کو تشویش بھی ہے جنہیں لگتا ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات ابھی اس نہج پر نہیں پہنچے کہ امریکہ افغانستان سے واپسی کی تیاریاں شروع کردے۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے بار بار افغانستان سے امریکی فوج واپس بلانے کی خواہش کے اظہار نے طالبان کے حوصلے ویسے ہی بلند کردیے ہیں کیوں کہ انہیں پتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کے لیے بے چین ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں طالبان امریکہ کی انخلا کی خواہش کو مذاکراتی عمل میں اپنے حق میں استعمال کرسکتےہیں اور اگر ایسے میں امریکی سفارتی عملے کے انخلا کی اطلاعات بھی سامنے آتی ہیں تو انہیں مزید شہ ملے گی۔
لیکن 'رائٹرز' کے مطابق اسے ایک امریکی اہلکار نے بتایا ہے کہ سفارتی عملے کے ا نخلاکو امریکہ کی خارجہ پالیسی کی سمت میں آنے والی تبدیلی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اہلکار کے بقول صدر ٹرمپ کی حکومت کی ترجیح انسدادِ دہشت گردی کے بجائے چین اور روس جیسے حریف ملکوں سے لاحق خطرات کا توڑ ہے جس کے لیے امریکی سفارت کاروں کی ذمہ داریوں کا از سرِ نو تعین ضروری ہے۔
لیکن افغانستان جیسے اہم ملک سے عین حالتِ جنگ میں سفارتی عملے کی اتنی بڑی تعداد میں منتقلی کے اثرات نہ صرف افغانستان بلکہ خطے بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔
کابل میں واقع امریکی سفارت خانہ دنیا میں امریکہ کی سب سے بڑی سفارتی تنصیب ہے جس کے عملے کی تعداد 1500 کے لگ بھگ ہے۔
چار سال قبل ہی امریکہ نے 80 کروڑ ڈالر مالیت سے سفارت خانے کی توسیع کا ایک بڑا منصوبہ مکمل کیا تھا جس کے تحت سفارت خانے میں 700 افراد کے قیام کی سہولت کا اضافہ کیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے سفارتی عملے کی واپسی پر نہ صرف افغان حکومت اور عوام خوش نہیں ہوں گے بلکہ امریکہ کے نیٹو اتحادیوں کو بھی اس پر مطمئن کرنا مشکل ہوگا۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے تاحال اس منصوبے کے موثر ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمۂ خارجہ کے بعض افسران نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں کانگریس کی بعض متعلقہ کمیٹیوں کے ارکان کو اس پر بریفنگ دی تھی۔