حکام نے بتایا ہے کہ کابل میں ہفتے کے روز وزارت مواصلات کی عمارت پر ہونے والے حملے میں تقریباً درجن بھر افراد ہلاک ہوئے، اور حملے کے نتیجے میں افغان دارالحکومت کے نسبتاً امن و امان والے ماحول کو دھچکا لگا ہے۔
وزارت داخلہ نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ تقریباً پانچ گھنٹے جاری رہنے والا یہ حملہ اب ختم ہوچکا ہے، اور یہ کہ ’’تمام خودکش حملہ آور ہلاک کیے گئے ہیں‘‘۔
وزارت مواصلات پر یہ حملہ دوپہر سے کچھ ہی وقت قبل عمارت کے داخلی دروازے پر کیے گئے دھماکے سے شروع ہوا۔
’رائٹرز‘ نے ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد سات ہے، جن میں چار سویلین اور تین پولیس اہلکار شامل ہیں، جب کہ آٹھ شہری زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس سربراہ، جنرل سید محمد روشن دل نے بتایا ہے کہ حملہ آور نے وزارت کی عمارت کے باہر اپنے آپ کو بھک سے اڑا دیا، جس کے بعد دیگر حملہ آور وسطی کابل میں واقع اس سرکاری کمپلیکس میں داخل ہوئے، جہاں سخت پہرہ ہوا کرتا ہے۔
پولیس نے تقریباً 2800 ملازمین کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرکے عمارت کے قریب علاقے کو بند کر دیا تھا۔ وزارت کے ترجمان نصرت رحیمی نے بتایا کہ کم از کم تین حملہ آوروں نے سیکورٹی افواج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا۔
رحیمی نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں پانچ ملازمین اور سیکورٹی کے تین اہلکار شامل ہیں۔ دیگر حملہ آوروں کو افغان افواج نے ہلاک کیا جس کے بعد علاقے کو واگزار کرا لیا گیا۔
کسی گروپ نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی اور طالبان عسکریت پسندوں نے حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کیا ہے، جنھوں نے حالیہ دنوں موسم بہار کی روایتی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
طالبان اور داعش مشرقی افغانستان میں سرگرم عمل ہیں اور اس سے قبل کابل میں ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول کرتے آئے ہیں۔
اس سے قبل موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، دھماکہ جس مقام پر ہوا وہ کابل کے انتہائی سخت سکیورٹی والے لگژری ہوٹل سرینا کے نزدیک ہی واقع ہے جہاں عموماً غیر ملکی شہریوں کی بڑی تعداد مقیم ہوتی ہے۔
دھماکے کے بعد بھاری ہتھیاروں سے لیس کئی حملہ آوروں نے وزارت کی کثیر المنزلہ عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد فائرنگ کی آوازیں بہت دیر اور ایک میل دور تک سنائی دیتی رہیں۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی میں دو خود کش حملہ آور مارے گئے ہیں جب کہ ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حملہ آوروں کے مزید کتنے ساتھی عمارت میں موجود ہیں۔
اس سے قبل وزارتِ داخلہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ حملے میں تین خود کش حملہ آور ملوث تھے۔ لیکن کابل پولیس کے سربراہ نے مقامی ٹی وی چینل 'طلوع' سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد چار ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا ہے کہ حملے کے بعد وزارتِ مواصلات اور نزدیک ہی موجود وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ملازمین کی اکثریت کا بحفاظت دفاتر سے نکال لیا گیا۔
ترجمان نے بتایا کہ نزدیک موجود وزارتِ ثقافت و اطلاعات کے دفتر کو بھی ملازمین سے خالی کرالیا گیا ہے۔