عراقی سیکورٹی افواج کے ہاتھوں موصل کے مہاجر کیمپوں میں داعش کے لڑاکوں کی درجنوں رشتہ دار خواتین کو ہراساں کیے جانے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی رپورٹیں ملی ہیں۔ یہ بات عراق کی تحقیقی صحافت سے وابستہ اخباری نمائندوں کے ایک نیٹ ورک اور موصل کی تفتیشی ٹیم کی ہفتہ وار مشترکہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
رپورٹ میں، جسے عراقی ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق نے مسترد کیا ہے، کہا گیا ہے کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران اس طرح کے 36 میں سے 16 معاملات کی ’’تصدیق‘‘ ہو چکی ہے، جن میں داعش کے عسکریت پسندوں کی رشتہ دار خواتین کے ساتھ جسمانی زیادتی ہوئی ہے، جن میں سے پانچ کی عمریں 15 سے 18 برس کے پیٹے میں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسمانی زیادتی کے تشدد کی اذیت سے بچنے کے لیے کئی بچیوں نے خودکشی کر لی ہے۔
اس رپورٹ کے تحریر کرنے والے سرکردہ شخص، دلووان برواری نے جمعےکے روز وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ ’’ان خواتین کو اُن کے والدین، شوہروں اور بھائیوں کی وجہ سے سزا دی جا رہی ہے، چونکہ وہ داعش سے وابستہ ہیں۔ اگر وہ جسمانی زیادتی کے معاملے سے متعلق شکایت درج کراتی ہیں تو اُن پر فوری طور پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا جاتا ہے‘‘۔
برواری نے کہا ہے کہ انٹرویو میں شامل خواتین کا کہنا ہے کہ زیاتی کے یہ مبینہ واقعات عراقی سیکورٹی فورسز اور شیعہ پاپولر موبلائزیشن (الحشد الشعبی) کے ہاتھوں ہوتے ہیں؛ جن میں اکثر چھاپے مارنا، تفتیش کرنا اور اُن کی ذاتی دستاویز چھیننا شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ایسے میں جب متمول خاندان رشوت دے کر اس غنڈہ گردی سے بچ جاتے ہیں، محدود وسائل والے خاندانوں کو حکم ماننا پڑتا ہے۔
برواری کے بقول، ’’مہاجر کیمپوں کے کچھ گھر اور خیمےعصمت فروشی کے اڈے بن گئے ہیں جہاں تین ڈالر یا تھوڑے سے کھانے کے عوض خواتین کو جسمانی زیادتی قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ محصور حالات میں رہتی ہیں، جن کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا‘‘۔
رپورٹ میں عراقی حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی، چونکہ ان اہل خانہ پر دھبہ لگا ہوا ہوتا ہے کہ اُن کے مرد داعش کے دہشت گرد ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ داعش کے ارکان کی مدد کے الزام کے خوف سے امدادی تنظیمیں زیادتی کی شکار خواتین کی مدد سے کتراتی ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ داعش کے اہل خانہ کے ساتھ ہونے والی یہ مبینہ زیادتی کی تصدیق موصل سے تعلق رکھنے والی برادری کےمتعدد ارکان نے بھی کی ہے، جو اسے مناسب سزا قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ میں 30 برس کے نعمت سلیمان کا حوالہ دیا گیا ہے، جو موصل کے باسی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ظلم کی سرگرمیوں میں ملوث تنظیم کے خاندانوں کو سزا دینا ضروری ہے۔ یہ سزا اس لیے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسی تنظیمیوں کو شہر سے دور رکھا جاسکے‘‘۔