اپنے تباہ حال گھر کی چھت پر کھڑے موصل کے عمر رسیدہ باسی، احمد نےکانپتے ہوئے اپنے تین بیٹوں کی ہلاکت کی لرزہ خیز داستان چھیڑی۔
گذشتہ سال بھر سے اُن کا گھر روس سے تعلق رکھنے والے داعش کے ایک شدت پسند کے زیر قبضہ تھا، جب کہ امریکی قیادت والے اتحاد نے اُنھیں فضائی کارروائی کا ہدف بنایا۔ حملے میں شدت پسند اور احمد کے لڑکے ہلاک ہوئے۔
اب احمد کہتے ہیں کہ اُن کی استطاعت نہیں کہ وہ اپنے باقی بچوں کے لیے گھر کی پھر سے تعمیر کر سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’کسی نے بھی ہمیں ایک کوڑی یا ایک دینار تک نہیں دیا۔ اُنھوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ نا کسی امدادی تنظیم، حکومت یا پھر کسی اور نے۔ یہاں میں نے اپنے تین بچوں کو کھو دیا‘‘۔
خطے کے کئی حصے جو کبھی داعش کے زیر قبضہ تھے، اُنھیں تعمیر کیا گیا ہے، زیادہ تر اُن گھروں اور کاروبار کے مالکان نے جو زندہ بچ گئے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں، حکومت اور مقامی امدادی گروہ بھی موجود ہیں۔ لیکن، رفتہ رفتہ مایوسی حاوی آتی جا رہی ہے۔
عراق نے ایک سال قبل داعش پر فتح کا اعلان کیا تھا، لیکن چونکہ حملے ابھی جاری ہیں، اس لیے مکینوں کا کہنا ہے کہ شہر کی تعمیر نو شروع کی جائے؛ لیکن صورت حال میں استحکام ایک سوالیہ نشان ہے۔
موصل کے تمام مضافات، جو عراق کا ایک بڑا شہر ہے، ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں، جب کہ قدیم شہر کی گری ہوئی عمارتوں کے اندر سے اب بھی لاشوں کی بو آ تی ہے۔
جو لوگ کبھی یہاں رہا کرتے تھے، وہ اپنے مسمار گھر پھر سے تعمیر کرسکتے ہیں، اگر اُن کے پاس اس کی گنجائش ہو۔ مقامی لوگوں کے مطابق، غفلت اور تنہائی کا بالکل یہی عالم تھا، جب اس خطے میں پہلی بار داعش نے آکر قدم جمائے تھے۔
امدادی تنظیمیں تعمیر نو کے کام میں سست روی کا الزام حکومت پر لگاتی ہیں۔ سرکاری دفاتر ایک دوسرے پر الزام دیتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ بیرونی اعانت کی ضرورت ہے۔
احمد اپنے گھر کی اُن چند دیواروں کے پاس کھڑے ہیں جو گرنے سے بچ گئی ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’’ہماری مدد کیوں کوئی نہیں کر رہا ہے؟‘‘۔
اُنھوں نے پھر کہا کہ ’’آخر کیوں؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گرد گروہوں میں شامل ہوجائیں؟‘‘
سال 2003میں جب امریکی قیادت والے اتحاد نے اُس وقت کے مطلق العنان، صدام حسین کو ہٹایا، عراق کے اس علاقے میں انتہا پسند باغیوں نے اپنے قدم جمائے۔