|
اسلام آباد -- بدھ کے روز سینیٹ اجلاس کی کوریج کے لیے گھر سے جلدی نکلا کیوں کہ اندازہ تھا کہ اس اجلاس میں کچھ اہم ہونے جا رہا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔
منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں بھی آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے اپنی تقریر میں اعلٰی عدلیہ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اعلان کیا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف تحریکِ استحقاق پیش کریں گے کیوں کہ اُنہوں نے مجھے کسی کی 'پراکسی' کہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کے بعد اپنے ریمارکس میں اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بعدازاں اس معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا گیا تھا جس کے بعد فیصل واوڈا کو توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے۔
عام طور پر عدالت میں زیرِ سماعت معاملات پر پارلیمان یا عوامی سطح پر لب کشائی نہیں کی جاتی مگر اس کے باوجود فیصل واوڈا کو اس معاملے پر اظہارِ خیال کی اجازت دی گئی۔
منگل کو فیصل واوڈا، سینیٹر عرفان صدیقی اور پیپلزپارٹی کی سینیٹر قرت العین مری کی تقاریر کے بعد یہ بتا دیا گیا تھا کہ اس موضوع پر دیگر پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈر بدھ کو اظہارِ خیال کریں گے۔
بدھ کو ساڑھے دس بجے سینیٹ کا اجلاس قائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی زیرِ صدارت شروع ہوا مگر جب ایک بار پھر اعلٰی عدلیہ کے ججز کے حوالے سے تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ چیئر سے اُٹھ کر چلے گئے۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے ایوان کی کارروائی آگے بڑھائی۔
صدر آصف زرداری کے بیرونِ ملک جانے کے بعد چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی قائم مقام صدرِ مملکت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
'آئین صرف ججز کی عزت کی بات نہیں کرتا'
بدھ کو عدلیہ سے متعلق تقرریر کا آغاز متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "اُمید ہے کہ فیصل واوڈا کو پراکسی کہنے کی وجوہات بیان کی جائیں گی۔"
اُن کا کہنا تھا کہ آئین صرف ججز کی عزت کی بات نہیں کرتا بلکہ وہ عوامی نمائندوں کی عزت پر بھی بات کرتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ پراکسی کا لفظ کسی ایک شخص کے لیے استعمال کیا گیا جن کے بارے میں (جسٹس اطہر من اللہ) بات کی جا رہی ہے اُنہوں نے تو توہینِ عدالت کا نوٹس نہیں دیا۔ توہینِ عدالت کا نوٹس تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طلال چودھری تقریر کرنے لگے تو پی ٹی آئی کے سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کے ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی اس دوران پی ٹی آئی ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔
شیری رحمان نے کہا کہ اگر کسی رکن کا استحقاق مجروح ہوتا ہے تو بات ہو سکتی ہے۔
طلال چودھری نے کہا کہ آئین بنانے والوں کو سزا دینے سے عدالت کا وقار بلند نہیں ہو گا اتنی جلدی کلرک کو نہیں نکالا جاتا جتنی جلدی وزیرِ اعظم کو نکال دیا جاتا ہے۔ اداروں کا تصادم نہیں ہونا چاہیے درگزر کا اصول عدالت کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ آپ سسلین مافیا، گاڈ فادر، پراکسی جیسے الفاظ کہیں گے تو انہیں کون برداشت کرے گا۔
'منشا کے مطابق فیصلے نہ آنے پر ججز نشانے پر آتے ہیں'
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ "کچھ ججز پہلے نشانے پر تھے کچھ ججز آج نشانے پر ہیں۔ منشا کے فیصلے نہ آنے پر ججز نشانے پر آتے ہیں کچھ ججز اسلام آباد ہائی کورٹ اور کچھ سپریم کورٹ کے ججز نشانے پر ہیں اس بحث سے تاثر مل رہا ہے کہ ججز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مجلسِ وحدتِ مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں 12 ہزار سے زائد سیاسی قیدی ہیں جنرل باجوہ نے اسرائیل کے متعلق بات کی۔
اس دوران سینیٹ میں ایمل ولی خان نے پہلی تقریر کی جو بدھ کے روز ہونے والی تقاریر میں سب سے طویل تھی مگر اکثر صحافیوں کا کہنا تھا کہ آج ایمل ولی نے میلہ لوٹ لیا ہے۔
اے این پی کے صدر سینیٹر ایمل والی کا کہنا تھا کے ایسا لگتا ہے کہ ایوان پھر کسی خاص مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ جو آج فائدہ اُٹھا رہے ہیں وہ کل زیرِ عتاب تھے اور جو کل کے بینیفشریز ہیں وہ آج زیرِ عتاب ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'پراکسی' کو 'پراکسی' ہی کہا جائے گا ہمیں غدار کہا گیا ہم کو تکلیف نہیں ہمیں پتا ہے ہم غدار نہیں ہیں۔
'آئین ججز کو اجازت نہیں دیتا کہ غصے میں جو دل آئے وہ کریں'
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اداروں میں ٹکراؤ کی بات نہیں، چیف جسٹس قابلِ احترام اور تحمل مزاج جج ہیں۔ کیا صرف سیاست دانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ کبھی کسی وزیرِ اعظم کو پھانسی دی جاتی ہے تو کبھی محض اقامہ پر نکال دیا جاتا ہے۔ آئین ججز کو اجازت نہیں دیتا کہ غصے میں جو دل آئے وہ کریں۔
تقاریر کے بعد شیری رحمان نے سینیٹ سیکریٹریٹ کو ایوان میں عدلیہ کے متعلق ہونے والی بحث کو سینیٹ چیئرمین کو بھیجنے کی ہدایت کر دی جس کے بعد اجلاس جمعے تک ملتوی کر دیا گیا۔
فورم