پاکستان میں ابتدائی طور پر رپورٹ ہونے والے کرونا وائرس کے زیادہ تر کیسز ایران سے آنے والے زائرین میں سامنے آئے تھے جو براستہ تفتان پاکستان پہنچے تھے۔
بلوچستان میں بہت سے واقعات کی رپورٹنگ کا اتفاق ہوا۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے لے کر لاپتا افراد کی کہانیوں تک۔ مگر سب سے زیادہ مشکلات اس عالمی وبا کی کوریج کے دوران ہی پیش آئیں۔ کیوں کہ ایسے حالات دیکھنے کا یہ بالکل ہی پہلا موقعہ تھا۔
جب بلوچستان میں کرونا وائرس کے ابتدائی کیس سامنے آئے تو میں کوئٹہ سے تفتان روانہ ہوا۔ تفتان جو ضلع چاغی کی تحصیل اور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، کوئٹہ شہر سے 632 کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔
روانگی سے قبل کچھ دوستوں نے بتایا تھا کہ تفتان میں وبائی مرض پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اس لیے وہاں سے کھانے پینے کی اشیا ہرگز نہ خریدیں۔ لہٰذا ہم نے احتیاطاً کوئٹہ سے ہی کھانے پینے کا بندوبست کیا۔
رات آٹھ بجے کے قریب ڈرائیور کے ہمراہ تفتان کے لیے روانہ ہوئے۔ لیکن نوشکی پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہم براستہ سڑک تفتان تک کا سفر نہیں کر سکتے کیوں کہ راستے میں تمام پیٹرول پمپ بند ہیں۔ آدھی رات کے وقت اگر کہیں بھی گاڑی کا فیول ختم ہوا تو آگے نہیں جا سکیں گے۔ اس لیے ہم نوشکی ہی سے کوئٹہ واپس آ گئے۔
بعد ازاں ہم نے تفتان میں موجود لوگوں سے رابطہ کیا اور واٹس ایپ پر ان کی بنائی ہوئی ویڈیوز منگوا کر چند ویڈیو رپورٹس مرتب کیں۔ اس وقت کوئٹہ اور ملک بھر میں کچھ حلقے کرونا وائرس کو مذاق سمجھتے ہوئے ایک سازش قرار دے رہے تھے۔ لیکن بعد میں جب کوئٹہ میں قرنطینہ مراکز بنے اور متاثرہ افراد کو یہاں لایا گیا تو اکثر لوگوں کی رائے بدلتے ہوئے دیکھی۔
شہروں میں تو لوگوں نے کرونا کے خوف سے ماسک لگانا شروع کر دیے۔ ہر ایک کو سینیٹائزر کے استعمال اور 20 سیکنڈز تک ہاتھ دھونے سے متعلق آگاہی مل گئی۔ مگر بلوچستان کے دیہی علاقوں میں بسنے والے لوگ عالمی وبا اور اس کے نقصانات سے بے خبر اور بے خوف ہی رہے۔
کوریج کے دوران میں نے ایک دیہی علاقے میں کچھ دیہاتیوں کو دیکھا جو کھیتوں کے پاس درخت کے سائے میں بیٹھے قہوہ پی رہے تھے۔ ان سے پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ کرونا وائرس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور بے خوف ہو کر اپنے کھیتوں میں کام کر رہے ہیں۔
انہیں حکومت سے صرف یہ گِلہ تھا کہ ان کے علاقے میں صحت کا بنیادی مرکز بنایا جائے جہاں بخار اور سردرد کی دوا موجود ہو۔
اس عالمی وبا کی کوریج کے دوران پاک افغان سرحدی علاقے چمن جانے کا موقعہ بھی ملا۔ وہاں بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرتے دیکھا۔
وہاں موجود ایک افغان خاندان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس جتنے پیسے تھے وہ ختم ہو گئے ہیں۔ وہ روز سرحد کھلنے کا انتظار کرتے تھے اور شام کو کسی مقامی شخص کے گھر میں پناہ لیتے تھے۔
پھر جب کوئٹہ میں لاک ڈاؤن شروع ہوا تو ہم نے اپنے دفتر سے سارا سامان لپیٹا اور گھر لے آئے۔ گھر کو ہی دفتر بنا لیا۔
اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ دفتر میں مجھے باہر کا کھانا کھانے کی عادت تھی جس کی وجہ سے تیزابیت اور سینے میں جلن کی اکثر شکایت رہتی تھی۔ لیکن لاک ڈاؤن میں گھر کا صاف ستھرا کھانا نصیب ہوا تو یہ تمام مسائل بھی اب ختم ہو گئے ہیں۔
کچھ ایسے واقعات بھی کوریج کے دوران پیش آئے جن کے بارے میں سوچیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ مثلاً کوریج کے دوران ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ ماسک لگانے سے چہرے کے تاثرات نظر نہیں آتے۔ دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کے دوران پتا نہیں چلتا کہ سامنے والا ہنس رہا ہے یا اسے برا لگا ہے۔ تو ماسک نہ پہننا ہی ٹھیک ہے۔
پاکستان بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے۔ لیکن جب شہر میں مکمل لاک ڈاؤن تھا تو ہم نے غریبوں کو راشن کی تلاش جب کہ اشرافیہ کو عید کی تیاری کے لیے بند دکانوں کے چکر لگاتے بھی دیکھا۔
یہ بھی دیکھا کہ ایک سرکاری محکمے کے سیکریٹری کے لیے کپڑے کی سیل دکان کا تالا کھولا گیا اور ان کی خوب آؤ بھگت کی گئی۔ اب نہ جانے یہ کرونا وائرس ہمیں اور کیا کیا رنگ دکھائے گا۔