پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کےعلاقے سوات میں عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید علاقے میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) دوبارہ منظم ہو رہی ہے۔
سوات کے علاقے مینگورہ سے یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ مبینہ عسکریت پسند پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو علاقے میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں جب کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق مشتبہ عسکریت پسند مقامی افراد کو بھی ہراساں کر رہے ہیں۔ تاہم سرکاری طور پر ان واقعات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
خیال رہے کہ سن 2008 اور 2009 میں سوات میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے علاقے میں خود کو منظم کر لیا تھا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو خالی کرا کر یہاں فوجی آپریشن کر کے علاقے کو کلیئر کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
چند روز سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ عسکریت پسند مبینہ طور پر یرغمال بنائے گئے سیکیورٹی اہلکاروں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار زخمی دکھائی دے رہا ہے جب کہ مبینہ طور پر ایک فوجی افسر اور ایک سپاہی کے ہاتھ باندھ کر اُن سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔
اس ویڈیو کے منظرِعام پر آنے کے بعد ایک عسکریت پسند نے سوات کے ایک مقامی صحافی سے ٹیلیفون پر رابطہ کرنے کے بعد بتایا کہ حکام کے ساتھ مبینہ معاہدے اور مذاکرات کے بعد ہی ان کے ساتھی مٹہ کے تین مختلف پہاڑی مقامات پر واپس آئے ہیں۔ مبینہ عسکریت پسند نے دعویٰ کیا کہ حکام نے انہیں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ یہاں پرامن طور پر رہ سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان افغان طالبان کی ثالثی میں افغانستان میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ جون میں فریقین غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی پر بھی متفق ہو گئے تھے۔
مذاکرات کے دوران یہ تجویز بھی زیرِ غور تھی کہ جو ٹی ٹی پی کے جو عسکریت پسند ہتھیار ڈال کر اپنے علاقوں میں جانا چاہیں تو حکومت انہیں نہیں روکے گی۔
مقامی صحافی شہزاد عالم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک عسکریت پسند نے اُنہیں بتایا کہ یرغمال بنائے گئے سیکیورٹی اہلکار ان شدت پسندوں سے مبینہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اِن کے علاقے میں داخل ہوئے تھے۔
شہزاد عالم کے بقول عسکریت پسند نے اُنہیں بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی کسی پر تشدد کا سوچ بھی نہیں سکتے اور پرامن طور پر اپنے علاقے میں رہنا چاہتے ہیں۔
شہزاد عالم نے بتایا کہ طالبان عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ دو فوجی اور ایک پولیس افسر سمیت چار سیکیورٹی اہلکاروں کو مقامی زعما کے ساتھ مذاکرات کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق چاروں اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے بعد طالبان نے تحصیل مٹہ کی ایک بااثر سیاسی شخصیت سمیت چار مقامی رہنماؤں کو بات چیت کے لیے بلایا، لیکن مقامی لوگوں نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیا۔
مینگورہ کی صورتِ حال
شہزاد عالم نے مزید بتایا کہ مٹہ کے پہاڑی علاقے بعد مبینہ عسکریت پسند اب وادیٔ سوات کے علاوہ مینگورہ جیسے اہم شہر میں بھی سرگرم ہو رہے ہیں ۔
ان کےبقول منگل کی رات دیر گئے مینگورہ اور سیدو شریف کو ملانے والے علاقے مکان باغ میں پانچ مسلح نقاب پوش افراد کو دیکھا گیا۔
اطلاعات کے مطابق نامعلوم افراد نے مینگورہ شہر کے علاقے بنڑ میں مقیم مقامی فن کاروں اور گلوکاروں کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ گانا بجانا اور رقص چھوڑ دیں۔
سوات کے ہی مقامی صحافی عیسیٰ خان خیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ صورتِ حال کے پیشِ نظر چند بااثر سیاسی اور کاروباری شخصیات نے اپنے اہلِ خانہ کو پشاور اور اسلام آباد منتقل کر دیا ہے۔ تاہم سرکاری طور پر اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
عیسیٰ خان خیل کا مزید کہنا تھا کہ سوات اور اس کے پہاڑی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی واپسی کی اطلاعات پر علاقے میں ہر شخص تشویش میں مبتلا ہے۔
عیسیٰ خان خیل کے مطابق اب اگر مذہب کے نام پر یہاں طالبان دوبارہ سرگرم ہوئے تو حالات خراب ہو سکتے ہیں اور لوگ دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتو ں کا مؤقف
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یومِ عاشور کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کی توجہ جلوسوں کی جانب تھی، تاہم اب حکومت سوات میں پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لے رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر سوات میں ضرورت پڑی تو وفاقی حکومت خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر کسی بھی شر پسندی کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار ہے۔
وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ حکومت تحصیل مٹہ کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے اور بہت جلد یہاں پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جا ئے گی ۔
انہوں نے کہا کہ یہ معلوم نہیں کہ یہ لوگ یہاں کیسے اور کس مقصد کے لیے آئے ہیں مگر ایک بات بہت واضح ہے کہ عسکریت پسند مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں اور ان میں سے بعض گروہ اور افراد امن مذاکرات کے خلاف ہیں ۔ ان کے بقول بعض جرائم پیشہ افراد بھی طالبان کا روپ دھار کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ر ہے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریکِ التو جمع
دوسری جانب سوات اور قبائلی اضلاع کی صورتِ حال کے پیشِ نظر خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریکِ التوا جمع کرا دی گئی ہے۔ تحریکِ التوا جماعتِ اسلامی پاکستان کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان نے جمع کرائی ہے۔
قرارداد میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا بالخصوص مالاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں بے امنی کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے۔
مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کے پے درپے واقعات سمیت سوات میں مسلح افراد کی جانب سے ڈی ایس پی سمیت دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کے واقعات تشویش ناک ہیں۔ لہذٰا ایوان کی کارروائی روک کر اس اہم معاملے پر بحث کرائی جائے۔