رسائی کے لنکس

وسط مدتی انتخابات: ریپبلیکنز کو کانگریس میں اکثریت حاصل


ریپبلیکنز کو ارکینسا، کولوراڈو، آئیووا، مونٹانا، نارتھ کیرولینا، ساؤتھ ڈکوٹا اور ویسٹ ورجینیا میں کم از کم سات نشتیں حاصل ہوگئی ہیں۔ اب سینیٹ میں، صورت حال مختلف ہوگئی ہے۔ جب کہ، بدھ کو مزید تین حلقوں کے نتائج کا اعلان ہونے والا ہے

ریپبلیکنز نے امریکی سینیٹ کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جب کہ ایوانِ نمائندگان میں اُنھیں مزید برتری مل چکی ہے، اور یوں، صدر براک اوباما کے بقیہ دو برس کے عہدہٴ صدارت کے دوران، ریپبلیکن پارٹی کو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔

منگل کے روز منعقد ہونے والے کانگریس کے انتخابات سے قبل، ڈیموکریٹس کو سینیٹ کے 100 ارکان کے ایوان میں، 55 نشستیں حاصل تھیں۔

لیکن، ریپبلیکنز کی طرف سے ارکینسا، کولوراڈو، آئیووا، مونٹانا، نارتھ کیرولینا، ساؤتھ ڈکوٹا اور ویسٹ ورجینیا میں کم از کم سات نشتوں کی جیت کے بعد صورت حال مختلف ہوگئی ہے، جب کہ بدھ کو مزید تین حلقوں کے نتائج کا اعلان ہونے والا ہے۔

یہ نتائج مسٹر اوباما کے لیے سخت دھچکے کا باعث ہوں گے، جن کا نام بیلٹ پیپر پر تو نہیں تھا، لیکن اُن کی پالیسیاں داؤ پر ضرور لگی ہوئی تھیں۔

وہ پیر کی شام کو ایک اخباری کانفرنس میں انتخابی نتائج کے بارے میں بات کریں گے، جب کہ اپنی قانون سازی کی ترجیحات پر غور کے لیے، اُنھوں نے جمعے کے روز وائٹ ہاؤس میں کانگریس کے قائدین کا ایک اجلاس طلب کیا ہے۔

کنٹکی سے ریپبلیکن پارٹی کے مِچ مکونیل، جو آسانی کے ساتھ دوبارہ منتخب ہوگئے ہیں، سینیٹ کے اکثریتی قائد ہوں گے۔ اُنھوں نے مسٹر اوباما کے ساتھ کچھ امور پر سمجھوتا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ لیکن، گذشتہ رات انتخابی فتح کی خوشی مناتے ہوئے، پارٹی نے اس بات کا بھی عہد کیا کہ قومی حکومت کا حجم کم کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔

مچ مکونیل نے اپنی نشست پر دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ وہ اس نشست سے، چھٹی بار کامیاب ہوئے ہیں۔

کانگریس پر ریپبلکنز کی گرفت مضبوط ہونے کے نتیجے میں، ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے پالیسی سازی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

صدر اوباما کو صحت عامہ سے متعلق اصلاحات کی پالیسی سمیت مختلف امور پر ریپبلکنز کی طرف سے سخت تنقید اور مخالف کا سامنا رہا ہے اور اب کانگریس میں ریپبلکن کی اکثریت کے باعث یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ ان پالیسیوں میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔

بہت سے ریپبلکنز نے ایبولا وائرس سے نمٹنے، سرکاری امور سے متعلق پابندیوں اور کینیڈا کی تیل پائپ لائن کی وسطی امریکہ گزرگاہ کی منظوری پر بھی اوباما کو ہدف تنقید بنایا۔

حزب مخالف کے بعض قانون سازوں کے یوکرین میں روس کی مداخلت اور عراق و شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی فضائی کارروائی کے بارے میں بھی صدر کے اقدامات اور نقطہ نظر پر بھی اختلافات ہیں۔

امریکہ کی ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز محصولات اور امیگریشن اصلاحات پر بھی ایک دوسرے سے الجھتی رہی ہیں۔

صدر اوباما اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ رواں سال کے آخر تک وہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے امیگریشن کے نئے قوانین متعین کریں گے۔

سینیٹ کی طرف سے منظوری کے باوجود ایوان نمائندگان نے اصلاحاتی مسودے پر ٹھوس پیش رفت نہیں کی تھی۔

بعض ریپبلکنز پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر کو یکطرفہ طور پر ملک کی ان امیگریشن پالیسیوں کو تبدیل کرنے میں رکاوٹ ڈالیں گے جس کے تحت غیر قانونی طور پر ماضی میں امریکہ میں داخل ہونے والوں کو یہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔

XS
SM
MD
LG