عالمی امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے کہا کہ امدادی کارکنوں نے بدھ کو شمالی شام میں فضائی بمباری کا نشانہ بننے والے ایک اسپتال کے ملبے سے تین زخمیوں کو زندہ نکال لیا ہے۔
اپنے مخفف ’ایم ایس ایف‘ سے جانی جانے والے اس تنظیم نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ ادلب صوبے میں مزید متاثرین کی تلاش جاری ہے۔
منگل کو ایم ایس ایف نے کہا تھا کہ پیر کو جب اسپتال پر حملہ کیا گیا تو اس کے عملے کے 25 ارکان اسپتال میں موجود تھے جبکہ 11 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں پانچ عملے کے ارکان، پانچ مریض اور ایک مریض کی عیادت کرنے والا شامل ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اسپتال پر کس نے بمباری کی۔ تاہم جنگ کے فریقین کے درمیان الزامات اور تردید کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کُک نے منگل کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکی قیادت میں قائم اتحاد کے طیارے اس بمباری میں ملوث نہیں۔ یہ اتحاد شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہا ہے۔
’’اس کے لیے زمین پر موجود لوگوں کی طرف سے محتاط تعین کی ضرورت ہے۔ میں جانتا ہوں کہ علاقے میں روسی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ سولات ہیں مگر میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کون براہ راست ملوث ہے۔‘‘
روس نے بھی اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس کی فورسز اس حملے میں ملوث ہیں۔
صدر ولادیمر پوتن کے ایک ترجمان نے منگل کو کہا کہ جو لوگ الزامات عائد کر رہے ہیں انہیں ذمہ داران کے بارے میں مزید معلومات کے لیے شامی حکومت پر انحصار کرنا چاہیئے۔
اقوام متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری نے کہا کہ حکومت کے پاس ’’ قابل بھروسہ‘‘ معلومات ہیں کہ امریکی اتحاد نے اسپتال پر بمباری کی۔
انہوں نے ایم ایس ایف پر بھی ’’شام میں کام کرنے والی فرانسیسی انٹیلی جنس کی ایک شاخ‘‘ ہونے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ یہ تنظیم ’’نتائج کی مکمل طور پر ذمہ دار‘‘ ہے کیونکہ یہ حکومت کی اجازت کے بغیر کام کر رہی تھی۔