ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ چین میں بچے کی پرورش پر لاگت اس کی فی کس آمدن سےتقریباً سات گنا ہے۔ جو امریکہ اور جاپان کے مقابلےمیں کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات چین کودرپیش اس چیلنج کی عکاسی کرتی ہے جو وہ تیزی سے گرتی ہوئی شرح پیدائش سے نمٹنے کے لیے کررہا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چین کی عمر رسیدہ آبادی، اس کے صحت اور سماجی تحفظ کے نظام پر بوجھ بن جائے گی ، جبکہ کم ہوتی افرادی قوت بھی آنے والی دہائیوں میں دنیا کی اس دوسری سب سے بڑی معیشت کی ترقی کو محدود کرسکتی ہے۔
گرچہ نئی پالیسی کے تحت کسی جوڑے کو زیادہ سے زیادہ تین بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے لیکن دو ہزار اکیس میں ہر ایک ہزار افراد میں شرح پیدائش سات اعشاریہ پانچ دو فیصد گر گئی جو کہ قومی ادارہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق 1949ء سے اب تک کی سب سے کم شرح ہے۔
بچوں کی پرورش پر آنے والے بے تحاشہ اخراجات پر قابو پانے کےلیے بیجنگ کو پرائیویٹ ٹیوشن کی صنعت کے خلاف کریک ڈاون کرنا پڑا، جبکہ کچھ علاقوں میں دوسرے یا تیسرے بچے کی پیدائش پر جوڑوں کو نقد رقم بھی دی جاتی ہے۔
بیجنگ میں قائم یو وا پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹوٹ نے منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 2019ء میں چین میں اٹھارہ سال کی عمر کے بچے کی پرورش پر اوسطاً لاگت پہلے بچے کے لیے چار لاکھ پچاسی ہزار یوآن رہی جو چین کی فی کس آمدن کا چھ اعشاریہ نو گنا ہے۔
تحقیق میں شامل تیرہ ممالک میں چین کا نمبر دوسرا ہے، صرف جنوبی کوریا اس سے آگےہے۔ جس کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے کم ہے۔ دو ہزار پندرہ کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں یہ اخراجات اس کی جی ڈی پی کا چار اعشاریہ گیارہ گنا زائد ہیں، جبکہ 2020ء کے اعداد وشمار کے مطابق جاپان میں یہ اخراجات اس کی جی ڈی پی کا چار اعشاریہ چھبیس گنا زائد ہیں۔
چین کے بڑے شہروں میں بچوں کی پرورش کے اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔جو شنگھائی میں ایک ملین یوآن اور بیجنگ میں نو لاکھ انہتر ہزار یوآن تک پہنچ گئے ہیں۔ دونوں شہروں میں شرح پیدائش قومی اوسط سے بھی کم ہے۔
ایک ماں نے چین کی ٹوئٹر جیسی ویب سائٹ مائیکرو بلاگ پر میننگ کے نام سے لکھا کہ ان کا خیال ہے کہ بیجنگ میں بچوں کی پرورش کے اخراجات شائد اس رپورٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس تخمینہ کے ساتھ بمشکل ہی دوسرے بچے کا تصور کرسکتی ہوں اور اس بات پر حیرت ہے کہ کوئی خاندان کیسے تیسرے بچے کا سوچ سکتا ہے ۔
یووا انسٹیٹوٹ نے خبردار کیا ہےکہ شرح پیدائش میں کمی کا چین کی اقتصادی ترقی اور اختراع کی صلاحیت اور اس کے فلاحی نظام پر گہرا اثر پڑے گا۔
ویب پر ، وکیل ژانگ کے نام سے ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ خواتین کو درپیش غیر متناسب بوجھ کو دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی فطری زچکی کی صلاحیت کے مطابق بچوں کی پیدائش اور پرورش کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے اخراجات زیادہ تر خواتین ہی برادشت کرتی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ خواتین طویل عرصے تک غیر منصفانہ مسابقتی ماحول میں رہتی ہیں۔
(خبرکا مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)