واشنگٹن —
کولمبیا یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کے منسلک تحقیق دانوں نے دماغ میں موجود ایک ایسے ’پروٹین‘ کا پتہ لگایا ہے جو ان کے نزدیک یادداشت کی خرابی سے متعلق بیماری ’الزائمرز‘ پیدا کرنے کا سبب ہو سکتا ہے۔
اس نئی تحقیق کے بعد ماہرین کو توقع ہے کہ سائنسدان الزائمرز کے علاج کے لیے کوئی ٹھوس اور موثر طریقہ ِ علاج دریافت کر سکیں گے۔
دماغ میں موجود عصبی خلیے یا نیورونز کے ذریعے معلومات بجلی کی صورت میں ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچائی جاتی ہیں۔ برقی رو مطلوبہ جگہ تک پہنچنے کے لیے عصبی خلیوں کے بیچ میں موجود فاصلے کو استعمال کرتے ہیں اور مختلف عصبی خلیوں میں سے راستہ بناتے اور آگے پیچھے ہوتے ہوئے دماغ کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جاتے ہیں۔ عصبی خلیوں کے درمیان یہ فاصلہ انگریزی میں synapses کہلاتا ہے۔ دوسری طرف دماغ میں موجود ایک اور پروٹین جو caspase-2 کہلاتا ہے، عصبی خلیوں یا نیورونز کے درمیان فاصلہ قائم رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ دماغ کے عصبی خلیوں یا نیورونز کے درمیان فاصلے میں خلل پڑنے سے مریض الزائمرز کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور نیورونز کے درمیانی فاصلے میں توڑ پھوڑ یا خلل الزائمرز کی پہلی سٹیج ہے جو آہستہ آہستہ نیورونز کی موت کا سبب بنتی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کے تحقیق دانوں کے مطابق دماغ میں موجود Caspase-2 نامی پروٹین synapses کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔
سائنسدانوں کو توقع ہے کہ دماغ میں موجود Caspace-2 نامی پروٹین کی سرگرمیوں کے بارے میں اس نئی تحقیق سے سائنسدانوں کو الزائمرز کے مرض کے خلاف کوئی طریقہ ِ علاج ڈھونڈنے میں مدد مل سکے گی۔
الزائمرز دماغ کی ایک ایسی بیماری ہے جو عموماً معمر افراد کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ اس بیماری میں انسان کی یادداشت آہستہ آہستہ جاتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انسانی مزاج میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ الزائمرز کی وجہ سے مریض کے سوچنے کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ بولنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے مریض کو کئی برسوں تک اپنے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں کی جانب سے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت رہتی ہے اور انسان مکمل طور پر دوسروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
امریکی ادارہ برائے تدارک ِ امراض کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 1 کروڑ 80 لاکھ افراد الزائمرز کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2025ء تک دنیا بھر میں الزائمرز سے متاثر افراد کی تعداد 3 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
اس نئی تحقیق کے بعد ماہرین کو توقع ہے کہ سائنسدان الزائمرز کے علاج کے لیے کوئی ٹھوس اور موثر طریقہ ِ علاج دریافت کر سکیں گے۔
دماغ میں موجود عصبی خلیے یا نیورونز کے ذریعے معلومات بجلی کی صورت میں ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچائی جاتی ہیں۔ برقی رو مطلوبہ جگہ تک پہنچنے کے لیے عصبی خلیوں کے بیچ میں موجود فاصلے کو استعمال کرتے ہیں اور مختلف عصبی خلیوں میں سے راستہ بناتے اور آگے پیچھے ہوتے ہوئے دماغ کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جاتے ہیں۔ عصبی خلیوں کے درمیان یہ فاصلہ انگریزی میں synapses کہلاتا ہے۔ دوسری طرف دماغ میں موجود ایک اور پروٹین جو caspase-2 کہلاتا ہے، عصبی خلیوں یا نیورونز کے درمیان فاصلہ قائم رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ دماغ کے عصبی خلیوں یا نیورونز کے درمیان فاصلے میں خلل پڑنے سے مریض الزائمرز کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور نیورونز کے درمیانی فاصلے میں توڑ پھوڑ یا خلل الزائمرز کی پہلی سٹیج ہے جو آہستہ آہستہ نیورونز کی موت کا سبب بنتی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کے تحقیق دانوں کے مطابق دماغ میں موجود Caspase-2 نامی پروٹین synapses کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔
سائنسدانوں کو توقع ہے کہ دماغ میں موجود Caspace-2 نامی پروٹین کی سرگرمیوں کے بارے میں اس نئی تحقیق سے سائنسدانوں کو الزائمرز کے مرض کے خلاف کوئی طریقہ ِ علاج ڈھونڈنے میں مدد مل سکے گی۔
الزائمرز دماغ کی ایک ایسی بیماری ہے جو عموماً معمر افراد کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ اس بیماری میں انسان کی یادداشت آہستہ آہستہ جاتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انسانی مزاج میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ الزائمرز کی وجہ سے مریض کے سوچنے کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ بولنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے مریض کو کئی برسوں تک اپنے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں کی جانب سے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت رہتی ہے اور انسان مکمل طور پر دوسروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
امریکی ادارہ برائے تدارک ِ امراض کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 1 کروڑ 80 لاکھ افراد الزائمرز کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2025ء تک دنیا بھر میں الزائمرز سے متاثر افراد کی تعداد 3 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔