رسائی کے لنکس

بے چین افراد کی 'چھٹی حس' تیز ہوتی ہے: تحقیق


نئے مطالعے سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ بےچینی کی عادت آپ کی زندگی کو بچا بھی سکتی ہے کیونکہ یہ آپ کے لیے 'چھٹی حس' کی طرح کام کرتی ہے۔

چھٹی حس کی اصطلاح ان مواقع پر استعمال کی جاتی ہے، جن میں کچھ باتوں یا نقصان کا پیشگی ادراک ہو جاتا ہے تاہم فرانسیسی محققین ایک نئی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نروس رہنے والے لوگوں کی چھٹی حس عام لوگوں سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔

اگرچہ طبی سائنس کی دنیا میں عرصہ دراز سے بے چینی اور فکر مندی کی دائمی کیفیت کو صحت کے لیے اچھا خیال نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ یہ جسم میں اسٹریس ہارمون کارٹی سول کی پیداوار کا سبب بنتی ہے لیکن، نئے مطالعے سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ بے چینی کی عادت آپ کی زندگی کو بچا بھی سکتی ہے کیونکہ یہ آپ کے لیے 'چھٹی حس' کی طرح کام کرتی ہے۔

نئی تحقیق کے مطابق دماغ خاص طور پر فکر مند لوگوں میں خطرات کو ترجیح دیتا ہے، جس سے فکر مند رہنے والے لوگ نا صرف سماجی خطرات کا پیشگی ادراک رکھتے ہیں بلکہ خوف کی حالت میں فوری طور پر جسمانی کارروائی کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔

جریدہ 'ای لائف' میں شائع ہونے والی تحقیق سے چھٹی حس کی ظاہری وضاحت بھی ملتی ہے، جس میں پہلی بار سائنس دانوں نے دماغ کے ایک مخصوص حصے کو 'چھٹی حس' یا 'الہام 'کے ساتھ منسلک کیا ہے۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ انسان کے دماغ کا یہ حصہ کسی پیشگی خطرے پر خود کار طریقے سے 200 ملی سکینڈز کے اندر اندر ردعمل ظاہر کرتا ہے تاہم نروس افراد ان خطروں اور منفی جذبات کے لیے زیادہ حساسیت ظاہر کرتے ہیں۔

تحقیق کاروں نے کہا کہ زیادہ حیرت انگیز دریافت یہ ہے کہ بے چین رہنے والے لوگ پرسکون لوگوں کے مقابلے میں دماغ کے مختلف علاقے میں خطرے کا پتا لگاتے ہیں۔

تاہم فرانسیسی محققین نےاس فرق کا ایک مفید مقصد بتایا ہے۔

'فرنچ انسٹی ٹیوٹ اینڈ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ' سے تعلق رکھنے والی تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر مروہ ال زین اور ان کے ساتھی تحقیق کاروں نے مطالعے کے لیے 24 رضا کاروں کے دماغ کی سرگرمیوں کے فرق کی نگرانی کی اور ان سے لوگوں کی ڈیجیٹل تصاویر میں خوف یا غصے کی حالت کو پہچاننے کے لیے کہا گیا۔

نتائج سے ظاہر ہوا کہ بے چینی خطرے کے سگنلز کو دماغ کے ایک حصے موٹرکارٹیکس تک تیزی سے پہنچاتی ہے، جو منصوبہ بندی، کنٹرول اور سزا کے لیے ذمہ دار ہے۔

لہذا نروس افراد جب خوف محسوس کرتے ہیں تو، وہ دماغ میں جسمانی کارروائی کے لیے ذمہ دار دماغ کے حصہ کا استعمال کرتے ہوئے خطرے پر عملدرآمد کرتے ہیں۔

دریں اثناء کم فکر مند یا پرسکون لوگوں کا جب سماجی خطرے سے سامنا ہوتا ہےتو، خطرے کے ابتدائی سگنلز ان کے دماغ کے ان علاقوں کو پہنچتے ہیں، جو 'سینسری سرکٹس' یعنی دماغی حس کے تصور یا چہروں کی شناخت کے ساتھ منسلک ہیں۔

تاہم محقق مروہ ال زین نے کہا کہ موٹرکارٹیکس میں خطرے کے لیے زیادہ حساسیت صرف اعلیٰ فکر مندی رکھنے والے لوگوں میں پائی گئی ہے۔

اس مطالعے میں تحقیق کار یہ شناخت کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں کہ انسان کب دوسرے شخص کے غصے سے خطرہ محسوس کرتا ہے۔

محقق مروہ ال زین کہتی ہیں کہ غصہ کرنے والا شخص جس سمت میں دیکھ رہا ہوتا ہے وہ ہمارے جذبات کو بھڑکانے کے لیے اہم ہے۔

مثلاً ایک شخص اگر براہ راست ہماری طرف دیکھتے ہوئے غصہ کرتا ہے تو، ہمارا دماغ انتہائی برق رفتاری کے ساتھ 200 ملی سکینڈز کے اندر اندر ہمیں کارروائی کے لیے تیار کر لیتا ہے لیکن اگر وہ شخص مجمے میں کہیں اور دیکھتے ہوئے غصہ کرتا ہے تو ہمیں اس سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG