رسائی کے لنکس

گم شدہ یادوں کی واپسی


گم شدہ یادوں کی واپسی
گم شدہ یادوں کی واپسی

کمپیوٹر کی طرح دماغ کا بھی ایک قدرتی سرچ انجن ہوتا ہے جو ان یادوں کو، جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے، لاشعور کے ڈیٹا بیس سے ڈھونڈتا ہے ۔ مگر جس طرح کمپیوٹر کی اس ہارڈ ڈسک سے، جس پر لاکھوں فائلیں محفوظ ہوں، ضروری معلومات کی موجودگی کے بغیر کوئی خاص فائل ڈھونڈنا دشوار ہوتاہے، اسی طرح اکثر پرانی یادوں کے معاملے میں ہمارا قدرتی سرچ انجن بھی بے بس ہوجاتا ہے۔

اگرکوئی آپ سے یہ پوچھے کہ جب آپ کی عمر چارسال پانچ ماہ اور آٹھ دن تھی، اس روز آپ نے دوپہر میں کیا کھایاتھا؟ تو یقنناً آپ کا جواب ہوگا کہ معلوم نہیں۔

یہ جواب بالکل فطری ہے کیونکہ بہت پرانی یاد کو اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ ذہن میں اس طرح تازہ کرنا ، جیسے وہ کچھ دیر پہلے کا واقعہ ہو، تقریباً ناممکن ہے۔ تاہم اب سائنس دانوں کا کہناہے کہ وہ اس ناممکن کو ممکن بنانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

گویا وہ دن قریب آرہاہے جب آپ یہ فخر سے یہ کہہ سکیں گے کہ مجھے یاد ہے ذراذرا۔

وقت گذرنے کے ساتھ ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں، مثلاًپرانے ساتھیوں کے نام ، ان کے چہرے، کئی پرانی چیزیں اور وہ سارے واقعات جو وقت گذرنے کے بعد ہمارے لیے غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ بعض دانا تو بھولنے کے عمل کو وقت کا مرہم کہتے ہیں کیونکہ تلخ یادیں اگر تازہ رہیں توزندگی جہنم بن جاتی ہے۔

یادوں کے معاملے میں انسانی دماغ ایک خودکار قدرتی نظام کے تحت کام کرتا ہے۔ تازہ ترین واقعات ہماری یاداشت کے اس حصے میں محفوظ ہوجاتے ہیں جس کاتعلق ’ قریبی یاداشت‘ سے ہوتا ہے۔ جب تک ہم ان واقعات کو دوہراتے رہتے ہیں ، وہ اسی حصے میں پڑے رہتے ہیں ، لیکن جب انہیں نطر انداز کردیتے ہیں تو دماغ انہیں پرانی یادوں کے حصے میں منتقل کردیتا ہے۔ گویا یہ نظام کمپبوٹر سے جیسا ہے۔ کمپیوٹر بھی ہروقت استعمال ہونے والے ڈیٹا کواپنے کیش یا قریبی یاداشت میں رکھتاہے اور باقی چیزیں ہارڈ ڈسک میں بھیج دیتاہے۔

نیویارک کے ڈاؤن سٹیٹ میڈیکل سینٹر کے دماغی امراض کے ایک ماہر ٹڈ سکٹور کہتے ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ پرانی یادیں دماغ سے مٹ نہیں جاتیں، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وہ اتنی گہرائی میں چلی جاتی ہیں کہ انہیں وہاں سے نکال کر شعور میں لانا عام حالات میں ممکن نہیں رہتا۔

اچھی یاداشت انسان کی اچھی کارکردگی کی ضامن ہوتی ہے۔ بعض ذہنی مشقوں کے ذریعے یاداشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ چائے اور کافی بھی وقتی طور پر دماغ کو مستعد بنانے اور چیزیں ذہین نشین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تمباکو کی نکوٹین بھی سوچ بچار کا عمل بہتر بناتی ہے۔ حکیم یاداشت کے لیے روزانہ بادام کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسی طرح میڈیکل اسٹوروں پر یاداشت بہتر بنانے کی دوائیں بھی ملتی ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہناہے کہ ان کا اثر بہت معمولی اور وقتی ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہناہے کہ یاداشت کو بہتر بنا کرکئی ذہنی امراض اور معاشرتی مسائل پرقابو پایا جاسکتا ہے۔

سائنس دان کئی برسوں سے کوئی ایسی دوا ڈھونڈنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس کے استعمال سے سارا ماضی ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آجائے۔

ماہرین کا کہناہےکہ کمپیوٹر کی طرح دماغ کا بھی ایک قدرتی سرچ انجن ہوتا ہے جو ان یادوں کو، جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے، لاشعور کے ڈیٹا بیس سے ڈھونڈتا ہے ۔ مگر جس طرح کمپیوٹر کی اس ہارڈ ڈسک سے، جس پر لاکھوں فائلیں محفوظ ہوں، ضروری معلومات کی موجودگی کے بغیر کوئی خاص فائل ڈھونڈنا دشوار ہوتاہے، اسی طرح اکثر پرانی یادوں کے معاملے میں ہمارا قدرتی سرچ انجن بھی بے بس ہوجاتا ہے۔

جریدے سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہےنیویارک اور اسرائیل میں اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق کے دوران ماہرین کو ایک ایسا مرکب ڈھونڈنے میں کامیابی مل گئی ہے جس کے ذریعے پرانی یادوں تک باآسانی رسائی حاصل ہوسکتی ہے اور اس کا اثر دیر تک قائم رہتاہے۔ اس نئے مرکب کا نام پی کےایم زیٹا ہے۔

ماہرین نے زیٹا کو چوہوں پر آزمایا اور اس کےنتائج انتہائی حوصلہ افزا رہے۔ چوہوں کو نئے مرکب کے انجکشن دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی دماغی ساخت انسانی دماغ کا ایک ابتدائی نمونہ ہے۔

ڈاؤن سٹیٹ میڈیکل سینٹر کے ماہر ٹڈ سیکٹور کا کہناہے کہ جب پی کے ایم زیٹا کے انجکشن چوہوں کو لگائے گئے تو انہیں وہ چیزیں یاد آگئیں جو چھ روز پہلے انہیں سکھائی گئی تھیں۔

سیکٹور کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہمارے لیے چھ دنوں کی کوئی اہمیت نہ ہو مگر چوہوں کے لیے، جن کی طبی عمر بہت کم ہوتی ہے، چھ دن ایک طویل عرصہ ہے۔

تحقیق میں شریک اسرائیل کے ویز من انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ایک ماہر یادین دودائی کا کہناہے کہ نئی دوا یاداشت کی سطح میں دیرپا اضافہ کرتی ہے ، تاہم فی الحال یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اس سے پرانی یادیں ڈرامائی حد تک تازہ ہوجائیں گی۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ایک نیورالو جسٹ جم مک گاف کا کہناہے کہ ایک کیمیائی مرکب کے ذریعے یاداشت بہتر بنانا ایک شاندار پیش رفت ہے لیکن ابھی اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ماہرین پی کے ایم زیٹا پر اپنے تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ وہ نئی دوا جلد مارکیٹ میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور پھر آپ ایک انجکشن لینے کے بعد بڑے فخر سے کہہ سکیں گے کہ مجھے یاد ہے ذرا ذرا۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG