حال ہی میں یونیورسٹی آف آئیووا کے سائنسدانوں نے انسانوںمیں اس بات کا پتہ چلایا ہے کہ اگر ان کےدماغ کا ایک مخصوص حصہ جسے ایمگڈلا کہا جاتا ہے کسی خرابی کا شکار ہو جائے توان میں ڈر اور خوف کے احساسات متاثر ہوتے ہیں ۔ اس ریسرچ کے مصنف جسٹن فائن سٹائن سے وائس آف امریکہ نے ایک تفصیلی انٹر ویو کیا جو پیش خدمت ہے۔
ڈاکڑ فائن سٹائن کا کہنا تھا کہ ان کی ریسرچ سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ دماغ کا ایک ٕمخصوص حصہ ایمگڈلا ڈر اور خوف کے احساس سے منسلک ہوتا ہے اور اس دریافت کی مدد سے مزید تجربات کے ذریعے ڈر اور خوف کے عمل کی جزیات کا پتا لگایا جاسکتا ہے اور اس سے ایسے افراد کے علاج میں مدد مل سکتی ہے جو شدید خوف کے باعث ذہنی دباؤ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیاغیر معمولی طور پر بے خوف اور نڈر کے دماغ میں یہ مخصوص حصہ موجود نہیں ہوتا تو تو ڈاکٹر جسٹن کا کہناتھا کہ اگرچہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی ہے لیکن موجودہ ریسرچ سے یہ مفروضہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ بہت ہی بہادراوربے خوف افراد کے دماغ کے اس حصے میں کوئی خرابی ہو سکتی ہے ، یا اس کا سائز بہت زیادہ چھوٹا ہو سکتا ہے اور یہ امکان بھی موجودہے خوف سے متعلق حصہ سرے سے وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ اور اسی طرح جو لوگ بہت زیادہ ڈرنے اور خوف میں مبتلا رہنے والے افراد کے دماغ کا یہ حصہ ممکنہ طورپر زیادہ فعال یا زیادہ بڑا ہوسکتا ہے۔
جب ڈاکٹر جسٹن سے پوچھا گیا کہ دماغ کے اس مخصوص حصے یا ایمگڈلا کی کسی خرابی میں مبتلا افراد کو خطرناک چیزوں سے بچانے کے لیے انہیں کس قسم کی تریبت دی جاسکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہماری ریسرچ کی ایک اہم دریافت یہی تھی کہ ا یمگڈلا کی خرابی میں مبتلا افراد بے خوفی کے باعث اپنی زندگی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔جیسا کہ اس سلسلے میں کیے جانے والےتجربات کے دوران ایمگڈلا سے محروم خاتون نے کئی بار خود کو ایسے خطرناک حالات میں ڈالا جن میں وہ مرتے مرتے بچی۔ تاہم جن لوگوں کے دماغ کے اس حصے میں کوئی خرابی ہو یا وہ سرے سےموجودہی نہ ہو تو انہیں خطرناک چیزوں سے ڈرنا سکھانا بہت مشکل کام ہے اور موجودہ مرحلے میں ہم انہیں صرف کونسلنگ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹرجسٹن کا کہنا تھا کہاس ریسرچ سے اور بھی کئی مفید پہلو سامنے آ سکتے ہیں لیکن ایک پہلو جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس تحقیق کے نتیجے میں ان افراد کے بارے میں ہماری رائے تو تبدیل نہیں ہوسکتی، جنہیں معاشرہ انتہائی بے خوف اور جرآت مند اور بہادر قرار دیتا ہے اور کیا انہیں بہادری کے خطابات دینے سے قبل ہم یہ تو نہیں سوچیں گے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان کے دماغ میں خوف سے متعلق حصے میں کوئی خرابی ہے یا وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
ڈاکٹر جسٹن کا کہنا تھا اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتہائی بے خوف اور نڈر افراد میں ایمگڈلاکی نشوونما اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شدید خوف کی صورت حال کا مقابلہ بڑے اطمینان اور بے خوفی سے کرسکتے ہیں۔تو وہ یا تو انتہائی با صلاحیت نارمل افراد ہیں یا پھر دماغ کے ایک انتہائی اہم حصے سے محروم ایک ایبنارمل انسان ۔ لیکن اس کا تعین صرف لیبارٹری ہی میں کیا جا سکتا ہے ۔