رسائی کے لنکس

کراچی کی ترقی کو پر لگ جائیں گے اگر۔۔۔


شہر کی تیز رفتار ترقی کے لئے یہ منصوبہ اگلے کچھ عشروں بعد ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگا، کیوں کہ ایک سروے کے مطابق سنہ 2030 میں آبادی کے لحاظ سے کراچی دنیا کا دوسرا بڑا شہر بن جائے گا۔ لہٰذا، یہاں ’ماس ٹرانزٹ‘ نظام ناگزیر ہوجائے ہے

ماہر ٹاؤن پلانرز کا خیال ہے کہ کراچی میں ترقی کی رفتار کو پر لگ جائیں گے اگر اس شہر میں جاری میگا پروجیکٹ کو جلد از جلد مکمل کر لیا جائے۔ ان میگا پروجیکٹس میں گرین لائنز، اورنج لائنز بس سروس اور سرکلر ریلوے سرفہرست ہے۔

دنیا کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے سرکلر ریلوے کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ کہیں اسے ’ٹیوب‘ کہا جاتا ہے تو کہیں’ میٹرو ٹرین‘ اور کہیں لوکل ٹرین ۔۔۔

سرکلر ریلوے یہاں 1964 میں قائم کی گئی تھی۔سن 1984 تک یہ فعال رہا لیکن تاخیر سے آنے سمیت کئی مسائل کے سبب مسافروں کی تعداد میں بتدریج کمی آنے لگی جس سے خسارہ بڑھتا چلا گیا اور بلاخر نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ سرکلر ریلوے کو 1999 میں بند کردینا پڑا۔

شہر کی تیز رفتار ترقی کے لئے یہ منصوبہ اگلے کچھ عشروں بعد ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگا، کیوں کہ ایک سروے کے مطابق سن 2030 میں آبادی کے لحاظ سے کراچی دنیا کا دوسرا بڑا شہر بن جائے گا۔ لہذا، یہاں ماس ٹرانزٹ نظام ناگزیر ہوجائے ہے۔

شہر کی آبادی ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہاں ٹیکسیاں چلنا تقریباً بند ہو چکی ہیں، لمبے روٹ پر آٹو رکشا والےجانے پر رضامند نہیں ہوتے، سرکاری بسوں کا وجود آٹے میں نمک کے برابر ہے، نجی بسوں کی تعداد ناکافی ہے، منی بسیں اور کوچز کی چھتیں تک مسافروں سے بھری ہوتی ہیں۔ لہٰذا پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ شہر کے سنگین اور گمبھیر مسائل میں سے ایک ہے۔

اب جب سے سی پیک کو ملک کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ تصور کیا جا رہا ہے تب سے کراچی سرکلر ریلوے کو بھی سی پیک منصوبے میں شامل کرلیا گیا ہے اور شہر میں ایک مرتبہ پھر سرکلر ریلوے کے قیام کی خبریں گرم ہیں۔

سندھ کی صوبائی حکومت اور خاص کر وزیر اعلیٰ سندھ اس منصوبے کی تکمیل کو ترجیح دے رہے ہیں اور انہی کی تجویز پر وفاقی حکومت نے سرکلر ریلوے کو سی پیک منصوبے کا حصہ بنایا ہے۔

سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر حسین شاہ نے ’وی او اے‘ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ ’’کراچی سرکلر ریلوے شہر کا میگا پراجیکٹ ہے جو کافی طویل عرصے سے زیر غور ہونے کے باوجود ٹلتا چلا آرہا ہے۔ پہلے ایک جاپانی کمپنی ’جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی(جے آئی سی اے)‘ یعنی (جائیکا) اس کی تعمیر کے لئے کوشاں تھی۔ تاہم، کچھ وجوہات کی بناپر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ اب سی پیک کے تحت اس منصوبے کو مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد یومیہ 7 لا کھ سے زائد مسافر اس سے مستفید ہو سکیں گے۔

وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ کے مطابق سرکلر ریلوے کے کل 24 اسٹیشن ہوں گے جن میں سٹی اسٹیشن، لیاری، غریب آباد، بلوچ ہوٹل، لیاقت آباد، اردو سائنس کالج، نیپا برج اور چنیسر ہالٹ وغیرہ شامل ہے۔

منصوبے کے تحت چلنے والی ٹرینیں تیئس اعشاریہ چھیاسی کلومیٹر سطح زمین سے اوپر اور باقی سفر زمین پر کریں گی۔کل 290 ٹرینیں چلیں گی، ٹرین کا ایک چکر 66 منٹ میں پورا ہوگا۔

ان دنوں منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ پر کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے فزیبلٹی کی تیاری کے لئے 45ملین روپے کی منظوری دے دی ہے۔

وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ، ڈی ایس ریلوے کراچی نثار میمن اور دیگر حکام کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑی مشکل سارے شہر میں ریلوے ٹریک پر قائم کی جانے والی تجاوزات ہیں جبکہ بیشتر ٹریک طویل عرصے تک استعمال نہ کئے جانے کے باعث زیرزمین آگیا ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ریلوے اور دیگر متعلق اداروں کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عرصے تک کسی کے نا پوچھنے کے سبب شہر بھر میں لینڈ مافیا نے ریلوے کی زمین اور ٹریک پر ناجائز طور پر بڑے بڑے بنگلے اور فیکٹریاں قائم کرلی ہیں۔ حتیٰ کہ اسٹیشن اور پلیٹ فارم کے لئے مخصوص جگہوں پر بھی غیرقانونی تعمیرات کھڑی کردی گئی ہیں۔ ڈی ایس ریلوے کراچی نثار میمن کے مطابق مجموعی طور پر 67 ایکڑ رقبے پر ناجائز تجاوزات پھیلی ہوئی ہیں۔ 4653 تعمیر ات پکی ہیں جن میں زیادہ تر رہائشی مکانات ہیں جبکہ دیگر تجاوزات کی تعداد 2997 ہے۔

ڈپٹی مئیر کراچی ارشد وہرہ کے بقول ’’وفاقی حکومت اس منصوبے میں دلچسپی لے رہی ہے اور جلد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ زمین قابضین سے خالی کرالی جائے گی۔‘‘

ایک رپورٹ کے مطابق، کراچی سرکلر ریلوے کے لئے ابتدائی لاگت 700ملین ڈالر مقرر کی گئی تھی۔ لیکن، سالوں تک منصوبہ زیر تکمیل رہنے اور روٹ میں تبدیلیوں کے سبب یہ لاگت اب 3 بلین ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ تجاوزات میں اضافہ ہوتا گیا جس کی وجہ سے منصوبے کے نفاذ کے اخراجات بھی بڑھتے چلے گئے۔

XS
SM
MD
LG