گزشتہ دنوں امریکہ اور کینیڈا کی ایسی کئی وائرل وڈیوز نظر سے گزریں جن میں کہیں بھارتی ،پاکستانی یا بنگلہ دیشی نژاد شہری دیسی گراسری اسٹورز کے باہر قطاریں لگائے کھڑے تھے تو کہیں وہ چاول کے تھیلے حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کرتے نظر آئے۔ ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ جتنا ہوسکے اپنے پاس چاول ذخیرہ کر لے۔
مجھے اطلاع ملی کہ چاول ختم ہو رہا ہے تو سوچا جا کر دیکھوں اور خبر کے ساتھ ساتھ ہو سکے تو کچھ چاول بھی حاصل کروں۔ اسٹور پہنچ کر دیکھا کہ چاول ندارد، مایوس واپس پلٹی۔
لیکن ایسا کیا ہوا کہ دیسی چاول مارکیٹ سے یوں اچانک غائب ہو گیا؟
دراصل بھارت نے 20 جولائی کو غیر باسمتی چاول کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بھارت کے محکمۂ خوراک کے مطابق اس سال مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے ملک میں چاول کے فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ محکمے کے مطابق چاول جس کی قیمت میں گزشتہ ایک سال کے دوران پہلے ہی گیارہ فیصد کا پہلے اضافہ دیکھنے میں آ رہا تھا، اس کی قیمت میں ایک ماہ میں جیسے ہی تین فیصد مزید اضافہ ہوا تو حکومت نے مقامی مارکیٹ میں قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے اسے برآمد کرنے پر پابندی لگا دی۔
بعض ماہرین کے مطابق بھارت میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر موجودہ حکومت اشائے خورد و نوش کی قیمتوں کے سلسلے میں بڑی حساس ہو گئی ہے۔
یہ پابندی چاول کی ان اقسام پر لگائی گئی تھی باسمتی کے زمرے میں نہیں آتیں، مگر پابندی کی خبر یہاں تک پہنچتے ہی دیسی کمیونیٹیز نے چاول ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مارکیٹ سے ہر قسم کا چاول اٹھا لیا جس سے کئی جگہوں پر دیسی اسٹورز میں چاولوں کے ریکس ہی خالی ہو گئے۔
امریکہ اور کینیڈا میں بھارتی نژاد شہریوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ بھارتی محکمہ خارجہ کے اعدادوشمار کے مطابق دونوں ممالک میں لگ بھگ 61 لاکھ سے زائد بھارتی نژاد باشندے آباد ہیں۔ اس کے علاؤہ یہاں بڑی تعداد میں پاکستانی، بنگلہ یدیشی اور سری لنکن اور نیپالی شہری بھی مقامی دیسی گراسری اسٹورز سے خریداری کرتے ہیں۔
چاولوں کی غیر باسمتی اقسام میں براؤن رائس، ٹوٹا چاول اور سونا مسوری چاول وغیرہ آتے ہیں جن میں خاص کر سونا مسوری چاول کی بھارتیوں بالخصوص جنوبی بھارتی کمیونیٹیز میں بڑی مانگ ہے۔
پابندی کی خبر اور اس کے بعد پریشانی کے عالم میں خریداری کے دس روز بعد ایک بار پھر میں صورت حال دیکھنے ایک بڑے دیسی اسٹورز کی چین کی اپنے قریبی واقع اسٹور گئی تو ہر طرح کے چاولوں کے رنگ برنگے تھیلے اسٹور کے بڑے رقبے پر سجے نظر آ رہے تھے۔
میری اسٹور کے مالک خالد ملک سے بات ہوئی جو گزشتہ دنوں شہریوں کی جانب سے چاولوں کے لیے بھاگ دوڑ کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ20 جولائی کو پابندی کی اطلاع ملی اور پھر یہاں لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ صورت حال دیکھتے ہوئے انہوں نے فی فیملی چاول کا ایک تھیلا فروخت کرنے کی پابندی لگائی تاکہ سب کو چاول مل سکے مگر خالد ملک کے بقول لوگ گاڑیاں بھر کر آئے تھے۔ خاندان کا ہر فرد الگ سے اپنے لیے چاول کا تھیلا خریدنے کی لائن میں لگتا۔ اسٹور مالک کے بقول انہیں پتہ تو تھا مگر وہ کیا کر سکتے تھے اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے اسٹور سے چاول غائب ہو گیا۔
چاول دوبارہ اتنی بڑی مقدار میں کیسے نظر آ رہا ہے؟
خالد ملک کا کہنا ہے کہ یہ وہ مال ہے جو پہلے سے گوداموں میں رکھا ہوا تھا۔ ان کے بقول سونا مسوری اور دیگر غیر باسمتی چاول تو فی الحال بھارت سے نہیں آئے گا لیکن بھارت کے علاوہ پاکستان، یا دیگر ایشیائی ممالک سے تو کہیں نہ کہیں سے آتا ہی رہے گا۔
لیکن اس ہلچل چل کے نتیجے میں ہوا یہ ہے کہ چاولوں کی قیمتیں اب بڑھ چکی ہیں۔ سونا مسوری جو کہ نسبتاً چاولوں کی سستی قسم ہے اس کا بیس پاؤنڈ کا تھیلا پہلے اگر پندرہ سولہ ڈالرز میں فروخت ہوتا تھا تو اب اس کی قیمت کہیں 30 ڈالر ہے ، کہیں 33 تو کہیں پچاس ڈالر بھی دیکھی گئی ہے۔
خالد ملک کا کہنا ہے کہ سپلائی اور ڈیمانڈ کا جب فرق آتا ہے تو یہی ہوتا ہے اب چاول فروخت کرنے والی کمپنیاں ہوں، آڑھتی، ایکسپورٹرز یا ریٹیلرز ہوں، سب اپنی قیمتیں اب خود طے کریں گے۔ ان کے مطابق انہیں بھی اب نئی قیمتوں پر چاول ملا ہے اس لیے کچھ قیمت تو انہیں بھی بڑھانی پڑی ہیں۔
بھارت چاول کی عالمی تجارت میں سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے جس کا حصہ چاول کی عالمی فروخت میں 40 فیصد سے زائد ہے۔ جس کے بعد بالترتیب تھائی لینڈ، ویتنام، پاکستان، برما اور چین آتے ہیں۔ بھارت سے دنیا کے 140 ممالک کو چاول برآمد ہوتا ہے۔ غیر باسمتی پر پابندی سے بھارت سے چاولوں کی برآمد تقریباً نصف رہ گئی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ گو کہ پابندی صرف غیر باسمتی چاول کی اقسام پر لگائی گئی ہے لیکن قیمتیں باسمتی چاول کی بھی بڑھ چکی ہیں۔ جب کہ ان کی قیمتوں میں کرونا وبا کے دوران امریکہ کینیڈا میں پہلے ہی بڑا اضافہ ہو چکا تھا۔
کیا چاولوں کی قلت صرف امریکہ اور کینیڈا ہی میں ہے؟
متحدہ عرب امارات بھارتی چاول کا بڑا خریدار ہی نہیں بلکہ یہاں سے چاول دنیا کے بہت سے ممالک بشمول امریکہ کو ری ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ بھارتی پابندی کے بعد متحدہ عرب امارات کی حکومت ںے بھی ملک سے چاول برآمد کرنے پر چار ماہ کی عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔اگر چار ماہ بعد پابندی اٹھنے کا اعلان نہ ہوا تو اس کی مدت میں خود بخود اضافہ ہو جائے گا۔
عرب امارات کے اخبار خلیج ٹائمز کے مطابق ملک میں چھ ماہ کی ضرورت کے چاول کا ذخیرہ موجود ہے جس کے باوجود ریٹیلرز نے چاول کی قیمت میں 40 فیصد تک اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اخبار کے مطابق ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ قیمتوں کی یہ اڑان غیر مستقل ہو گی اور چاول کی فراہمی بہتر ہونے پر قیمتیں ایک بار پھر نیچے جائیں گی۔
فورم