دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی خوراکیں دینے کا عمل جاری ہے۔ امریکہ اور یورپ سمیت کئی ملکوں میں کاروبار کھولے اور پابندیاں نرم کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کووڈ-19 کے پھیلاؤ کی خبریں بھی آ رہی ہیں، جسے وبا کی چوتھی لہر کا نام دیا جا رہا ہے۔
پیر کا دن برطانیہ میں ایک طرح سے کرونا وائرس سے آزادی کا دن تھا کیونکہ اس روز عالمی وبا سے منسلک تمام سماجی پابندیاں، مثلاً ماسک پہننا، ایک دوسرے سے فاصلہ قائم رکھنا اور فضائی سفر سے منسلک شرائط سمیت تمام پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔
لیکن دوسری جانب برطانیہ کے وزیر صحت ساجد جاوید نے، جو کووڈ-19 پر کنٹرول کے پروگرام کے نگران ہیں، ہفتے کے روز بتایا کہ ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد وہ قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس نے وزیر اعظم بورس جانسن اور وزیر خزانہ رشی سونک کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اگر وہ کرونا پازیٹو سے قریبی رابطے میں آئے ہوں تو قرنطینہ میں چلے جائیں۔
امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں لاس اینجلس کاؤنٹی نے کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ماسک پہننے کی پابندی ہفتے کے روز سے دوبارہ عائد کر دی ہے۔ لیکن کاؤنٹی کے شیرف نے کہا ہے کہ محکمہ صحت کی یہ پابندی سائنس سے مطابقت نہیں رکھتی اس لیے وہ اس حکم پر عمل درآمد نہیں کروائیں گے۔
شیرف ایلکس ولانیویا نے اپنے محکمے کی ویب سائٹ پر ایک بیان شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے یا جنہیں کووڈ-19 ہو چکا ہے، ان سے ماسک پہننے کی پابندی کروانا سائنس اور سی ڈی سی کی ہدایات کے خلاف ہے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر جھوٹی اور گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں پر نظر رکھنے والے ایک گروپ نے، جس کے دفاتر واشنگٹن اور لندن میں ہیں، اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ انہوں نے ایک درجن ایسے گروہوں کا کھوج لگایا ہے جنہوں نے کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کے خلاف جھوٹ پھیلا کر دولت کمائی ہے۔ سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ نے کہا ہے کہ ان گروہوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے فیس بک، انسٹاگرام، یو ٹیوب، ٹوئٹر اور دوسرے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال کیا۔ سوشل میڈیا نے بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل ٹریفک اور اشتہارات کی آمدنی کے پیش نظر ان گروہوں کو جھوٹ پھیلانے دیا۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور سرجن جنرل ویویک مورتھی نے شکایت کی تھی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کرونا وائرس کے متعلق جھوٹ اور گمراہ کن معلومات پھیلائی جا رہی ہیں جس سے عالمی وبا کے خلاف مہم متاثر ہو سکتی ہے۔
امریکی سرجن جنرل ڈاکٹر ویویک مورتھی نے اتوار کے روز کہا کہ انہیں ملک میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش ہے۔ انہوں نے اس کا کچھ الزام سوشل میڈیا کمپنیوں پر یہ کہتے ہوئے لگایا کہ وہ ویکسین لگوانے کے خلاف غلط معلومات نہیں ہٹا رہیں۔
فاکس نیوز سنڈے میں گفتگو کرتے ہوئے مورتھی نے کہا کہ امریکہ میں اس وقت ہر روز تقریباً 29000 نئے کیسز کی تشخیص ہو رہی ہے جو لگ بھگ وہی سطح ہے جو اپریل 2020 میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ تیزی سے پھیلنے والا ڈیلٹا ویرینٹ سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔
فیس بک کے ایک عہدے دار گائے راس نے ہفتے کے روز کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو الزام لگانا بند کر دینا چاہیے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ فیس بک نے ویکسین کی قبولیت میں اضافہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔
امریکہ میں اب بھی ایسے افراد کی تعداد کل آبادی کے نصف سے زیادہ ہے جنہیں ابھی تک ویکسین کی مکمل خوراکیں نہیں ملیں، یا وہ ویکسین لگوانے سے اجتناب کر رہے ہیں۔
لیکن امریکہ میں کرونا وائرس پر کام کرنے والے ایک گروپ کائزر فیملی فاؤنڈیشن (کے ایف ایف) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ویکسین لگوانے کی جانب امریکیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
کے ایف ایف کا کہنا ہے کہ اس سال جنوری میں انہوں نے امریکہ میں ایک سروے کرایا تھا جس میں ویکسین لگوانے سے متعلق بالغ افراد سے سوال کیا گیا تھا۔ اب چھ ماہ کے بعد انہی افراد سے دوبارہ یہی سوال کیا گیا تو پتا چلا کہ اس عرصے کے دوران بہت سے افراد کی سوچ تبدیل ہو کر ویکسین لگوانے کے حق میں چلی گئی جس کی وجہ ان کے دوستوں، رشتے داروں اور فیملی ڈاکٹروں کا انہیں ویکسین لگوانے کی افادیت کے متعلق قائل کرنے میں کامیاب ہونا تھا۔
کے ایف ایف کا کہنا ہے کہ جنوری میں جن لوگوں نے کہا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہوا، وہ ویکسین لگوا لیں گے، ان میں 92 فی صد کو ویکسین لگ چکی تھی۔ جن لوگوں نے جنوری میں کہا تھا کہ وہ انتظار کریں گے اور دیکھیں گے، چھ ماہ کے بعد ان میں 54 فی صد ویکسین کی خوراکیں حاصل کر چکے تھے۔ جب کہ جنوری میں جن کا کہنا تھا کہ وہ یقینی طور پر ویکسین نہیں لگوائیں گے، ان میں سے 76 فی صد نے چھ مہینے گزرنے کے بعد بھی ویکسین کی خوراکیں نہیں لیں تھیں۔
دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافے کی خبریں آ رہی ہیں۔ انڈونیشیا میں وائس آف امریکہ کی نمائندہ ایوا مزریوا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مہلک وبا عام لوگوں کے ساتھ ساتھ طبی عملے کی بھی جانیں لے رہی ہے۔ جولائی میں اب تک ملک بھر میں کرونا سے 114 ڈاکٹر ہلاک ہو چکے ہیں جو جون کے مقابلے میں دگنی تعداد ہے۔ یہ ہلاکتیں ایک ایسی صورت حال میں ہو رہی ہیں جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 95 فی صد طبی عملے کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جا چکی ہے۔
انڈونیشیا میں وبا کے آغاز سے اب تک 545 ڈاکٹر ہلاک ہو چکے ہیں۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق انڈونیشیا میں 28 لاکھ افراد کرونا سے متاثر اور 72 ہزار سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔