1947 میں برصغیر کی باگ ڈور پاکستان اور بھارت کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے انگریز کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ 18 ویں صدی میں جنوب مشرقی انگلستان سے جنم لینے والے جینٹلمینز گیم ’کرکٹ‘ میں اصل رنگ ان دو ملکوں نے بھرنا تھا۔
یوں تو پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے اور بھارت کا، ارے صاحب چھوڑئیے۔ ہاکی ہو، کبڈی ہو یا کہ فٹبال۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم سے تو کرکٹ کی بات کیجیئے، جو دونوں ملکوں کی عوام کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے۔ کوئی زمانہ تھا یہ لہو ہر کچھ عرصے بعد ٹیسٹ اور ون ڈے میچ کی صورت میں ایک دوسرے پر جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کی وجہ سے خوب گرم رہتا تھا۔ مگر یہ گئے وقتوں کی ایسی یاد بن کر رہ گئی ہے جو اب کسک بنتی جا رہی ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو پاکستان انڈیا کے درمیان کرکٹ کے قصے بھی نانی دادیوں کی کہانی کی طرح اگلی نسل تک کچھ یوں منتقل کیے جائیں گے، ’ہائے، وہ بھی کیا سنہری دن تھے جب دونوں ملک کرکٹ کھیلا کرتے تھے‘۔
مگر اب ایسا بھی نہیں کہ کرکٹ بالکل ہی نہیں کھیلتے۔ بھلا ہو آئی سی سی کا جو ہر بڑے ایونٹ پر ان روٹھے پڑوسیوں کو مد ِمقابل لے ہی آتا ہے۔ یوں چارو ناچار بھارت کو اس ٹیم کے ساتھ کھیلنا ہی پڑتا ہے جسے وہ گذشتہ کئی برسوں سے وعدوں کے باوجود ’حکومت نہیں مانتی‘ کہہ کر ٹالتا چلا آرہا ہے۔
اب جبکہ اتوار کو اوول کے تاریخی میدان میں دونوں روایتی حریف ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کا سامنا کرنے کی تیاری کس رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف دونوں ملکوں کے عوام انٹرنیٹ پر ایک دوسرے کو خوب آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
بات ہو جائے ٹوئٹر کی، جو آج کل بحث کرنے کا سب سے موثر اور تیز ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔۔۔ ایک زمانہ تھا لوگ ایک دوسرے کے مد ِمقابل بیٹھ کر بحث کرتے تھے، مگر وقت بدلا اور انداز بدلا۔ اب آپ کے ہاتھ میں کمپیوٹر یا موبائل فون ہو، ٹوئٹر کا اکاؤنٹ ہو تو آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر کسی سے بھی مخاطب ہو سکتے ہیں۔۔۔ عام لوگوں کی طرح دنیا کی مشہور شخصیات خواہ وہ سیاستدان ہوں، صحافی ہوں، اداکار ہوں یا کہ رائٹر۔ 140 حرفوں میں اپنے دل کی بات کہہ سکتے ہیں، کسی کو جلی کٹی سنا کر اپنے دل کا بوجھ بھی ہلکا کر سکتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی بھارت کے مشہور ِزمانہ اداکار رشی کپور نے بھی کیا، جن سے پاکستان یوں بھی محبت رکھتا ہے کہ ان کے بزرگوں کا تعلق پشاور سے تھا۔ رشی کپور ان دنوں انگلستان میں اپنی ٹیم کی ہمت بڑھانے کو موجود ہیں اور پاکستان بھارت کے فائنل پر کسی بھی روایتی بھارتی شہری کی طرح انتہائی جوش میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی جوش ان کی ٹوئٹس پر بھی غالب دکھائی دے رہا ہے۔ ٹوئٹس جن کے بارے میں خود رشی کپور کے بیٹے رنبیر کپور کا کہنا ہے کہ ’پاپا رات ساڑھے دس بجے کے بعد ٹوئٹر پر بیٹھتے ہیں‘۔
یوں تو ہم ایک صحافی ہونے کے ناطے ٹوئٹر کی دنیا پر ایسے کسی بھی تنازعے سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بھارت کے ایک بڑے ادکار کو، جن کی اداکاری کے مداحوں کی تعداد پاکستان میں بھی کم نہیں، ایسی زبان استعمال کرتا دیکھ کر رہا نہ گیا۔
ہمارے ٹوئٹ پر رشی کپور کا ’جواب ِآں غزل‘ کچھ یوں آیا۔
بس پھر کیا تھا۔۔۔ یوں لگا جیسے دونوں ممالک کے لوگ تلے بیٹھے تھے کہ پاکستان انڈیا کا میچ آج ٹوئٹر پر جیت کر ہی اٹھیں گے۔ بھارت نے پاکستانیوں کو باپ دادا یاد کرانے کی ٹھانی اور پاکستانی بھی کہاں چوکنے والے تھے۔ پاکستانیوں نے بھارت کو یاد دلایا کہ انہوں نے ایک روز پہلے آزادی حاصل کرکے ’باپ‘ کا درجہ بھارت سے پہلے حاصل کیا تھا۔ بس اس ’باپ بیٹے‘ کی لڑائی نے نہ جانے کتنے ہی مزید قصے کھود ڈالے۔ خود رشی کپور بھی اس ٹوئٹر بحث میں وقتا فوقتا اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
یقینا ٹوئٹر پر جاری یہ نوک جھوک اور رشی کپور کے ٹوئیٹ میں طنز کی جھلک انکی اپنے وطن سے اس دیوانہ وار محبت کا اظہار ہے۔۔۔ اپنے اپنے ملک سے محبت ان دونوں قوموں کی پہچان ہے اور کرکٹ کی دنیا میں رنگ بھی جمائے رکھتی ہے۔ بھلا بتائیے کسی بھی آئی سی سی کرکٹ ایونٹ کا اس سے بہتر فائنل کیا ہو سکتا ہے کہ بھارت اور پاکستان آپس میں مد ِمقابل ہوں۔ ضرورت حب الوطنی کے ان رنگوں کے ساتھ ساتھ اپنے انداز میں شائستگی برقرار رکھنے اور دلوں میں تھوڑی سی گنجائش بڑھانے کی بھی ہے جو اتوار کے روز بھارت یا پاکستان کے میچ کی جیت کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے ایک اچھے کھیل کی بھی تمنا کرے اور جیتنے والی ٹیم کو اس کی محنت کے پورے نمبر بھی دینے پر آمادہ ہو۔۔۔ میری امید تو یہی ہے کہ اتوار کے روز پاکستان چئمپینز ٹرافی اٹھائے مگر ایسا نہ ہو سکا اور ٹرافی بھارت لے اڑا تو بھی ٹوئٹر پر جا کر بھارت کو مبارک باد دینا تو بنتا ہے!!