رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات: 'قانون تو ہے مگر عمل درآمد نہیں ہوتا'


  • خیبرپختونخوا میں حالیہ دنوں میں غیرت کے نام پر قتل کے مختلف واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
  • جرگے کی جانب سے ایک معاملے پر جوڑے کو موت کی سزا سنا دی گئی جس کے بعد خاتون کو دارالامان منتقل کر دیا گیا ہے۔
  • صوابی میں والدین نے مبینہ طور پر جوان سال بیٹی کو زہریلی دوا پلا کر قتل کر دیا۔
  • غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات کوہستان، دیر، سوات اور دیگر پسماندہ علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں حالیہ دنوں میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین سماجی ناہمواری، پسماندگی اور دیگر معاملات کو ایسے واقعات بڑھنے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کا تازہ ترین واقعہ وادی سوات کی تحصیل کبل میں پیر کو پیش آیا جہاں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو خاتون کے سابقہ شوہر اور بھائی نے ایک تیسرے شخص کے ساتھ مل کر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ فائرنگ کے واقعے میں ایک بچہ معجزانہ طور پر بچ گیا۔

پولیس کے مطابق خاتون نے پہلے شوہر جس کا تعلق اپر دیر سے بتایا جاتا ہے۔ طلاق لے کر ایک اور شخص جس کا تعلق منگلور سوات سے بتایا جاتا ہے کے ساتھ شادی کی تھی۔

پیر کو جب میاں بیوی کبل تحصیل کے گاوں ڈھیرئ کے ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے تو اسی اثنا میں خاتون کے سابقہ شوہر اور والد نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے اُنہیں قتل کر دیا۔ میاں بیوی کے ساتھ موجود چھوٹا بچہ معجزانہ طور پر بچ گیا۔

دہرے قتل کی واردات میں ملوث دونوں مبینہ ملزمان کو پولیس نے گرفتار کر کے مزید تفتیش شروع کر دی ہے۔

صوابی میں نوجوان لڑکی غیرت کے نام پر قتل

خیبر پختونخوا کے وسطی ضلع صوابی کے قصبے یارحسین کے نواحی گاؤں سرد چینہ مین عیدالفطر کے تیسرے روز والدین نے مبینہ طور پر جوان سال بیٹی کو زہریلی دوا پلا کر قتل کر دیا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق والدین نے اس واقعے کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی، تاہم پولیس نے کارروائی کر کے والدین اور مقتولہ خاتون کے مبینہ دوست کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔

صوابی پولیس کے مطابق ملزم عاطف کے مقتولہ کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے مقتولہ کے والد اور دیگر افراد نے منصوبہ بندی کے تحت لڑکی کو قتل کر کے دفنا دیا۔

عید الفطر کے دوران ہی ایک اور واقعے میں شمالی پہاڑی ضلع کوہستان میں قریبی رشتہ داروں اور روایتی جرگے کی جانب سے جوڑے کو ہلاک کرنے کے فیصلے کے بعد مذکورہ لڑکی کو دارالامان منتقل کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ صوبے میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات اب بھی ہو رہے ہیں۔

واقعات بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟

انسانی حقوق اور خواتین کے تحفظ کے لیے سرگرم افراد اور غیر سرکاری اداروں کے عہدے دار غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن خیبر پختونخوا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر شبینہ ایاز کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کی زیادہ تر کارروائیاں کوہستان، دیر، سوات اور دیگر پسماندہ علاقوں سے سامنے آ رہی ہیں۔

اُن کے بقول ان علاقوں میں شرح خواندگی کم ہے جب کہ معاشی ابتری اور سماجی ناہمواری بھی ان واقعات کے بڑھنے کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔

شبینہ ایاز کا کہنا تھا کہ 2004 میں اس قسم کے واقعات یا وارداتوں کی روک تھام کے لیے قانون تو بنایا گیا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ان کے بقول ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف قانون پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے بلکہ اس قسم کے واقعات میں ملوث ملزمان کو سخت سزائیں بھی دی جائیں۔

کوہستان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی نوجوان نے وائس آف امریکہ کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ مذکورہ لڑکی خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مانسہرہ کے علاقے بفہ ڈوربہ میں رہائش پذیر ہے۔

اُن کے بقول رمضان کے آخری ہفتے میں سحری کے دوران گھر سے ملحقہ ایک اور گھر میں لڑکی اور ایک پولیس اہلکار کو دیکھ کر والد نے چور چور کی آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ اُن کے بقول اس کے بعد دونوں کو مقامی روایتی جرگے کے سامنے پیش کیا جانا تھا جس میں والد نے اپنی بیٹی کو تو پیش کر دیا، لیکن مرد پولیس اہلکار فرار ہو گیا۔

قبائلی نوجوان نے بتایا کہ دوسرے روز جرگے نے لڑکی اور لڑکے کو قتل کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا اور اسی مقصد کے لیے خاتون کو کوہستان کے آبائی گاؤں روانہ کر دیا گیا۔ تاہم شانگلہ کے سرحدی قصبے بشام میں پولیس نے لڑکی کو پریشان دیکھ کر مختصر پوچھ گچھ کے بعد تحویل میں لیا اور والد کو بھی حراست میں لے کر عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔

قبائلی نوجوان کے مطابق عدالت نے لڑکی کو دارالامان اور ان کے والد اور ایک دوسرے قریبی رشتے دار کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

لڑکی کے ایک بھائی اور کوہستان سے رُکن خیبر پختونخوا اسمبلی فضل حق نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ لڑکی کے بزرگوں نے یہاں بفہ ڈورہہ کے علاقے میں ایک میٹنگ کے دوران خاندان کے افراد کو اسے اور پولیس کانسٹیبل کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ تاہم اب ان کی کوشش ہے کہ اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔

قبائلی نوجوان کا کہنا ہے اگر لڑکی غیر شادی شدہ ہو تو پھر اس قسم کے معاملات میں افہام و تفہیم یا تصفیے کی گنجائش ہوتی ہے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ لڑکی کا والد جیل سے باہر آ جائے۔

قبائلی نوجوان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی 10 ویں جماعت کی طالبہ ہے۔ رُکن صوبائی اسمبلی فضل حق مقامی لوگوں اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے فضل حق کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اُن کے بقول "ہم دونوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے مقامی روایات کے مطابق معاملہ طے کرنے کے عمل میں ہیں۔ ایک جرگہ جلد ہی لڑکی کے بڑوں کے پاس صلح کے لیے جائے گا۔"

اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکار کے بھائی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ان کے اور لڑکی کے خاندان کالج ڈورہہ کے علاقے میں ایک گلی میں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لڑکی کی والدہ 17 سالہ لڑکی کی شادی اپنے بھائی سے کرنا چاہتی تھی جس سے خاندان کے بزرگ ناراض تھے۔

غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹس کے مطابق 2023 میں ملک بھر میں 550 سے زیادہ افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گئے ہیں جب کہ سن 2022 میں یہ اعداد و شمار 520 تھے جس میں 323 خواتین اور 197 مرد غیرت کے نام قتل کیے گئے۔ اس سے قبل 2021 میں غیرت کے نام پر 470 افراد مارے گئے تھے۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اور تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تو موجود ہے مگر اس قسم کے واقعات میں مدعی اکثر قریبی رشتہ دار یا پولیس والے ہوتے ہیں۔ یہی رشتے دار بعد میں صلح صفائی کرتے ہیں جب کہ پولیس استغاثہ کے جانب سے مقدمات کی پیروی صحیح انداز میں نہیں کرتی جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG