|
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے 'گھر میں گھس کر مارنے' کے بیانات کے بعد نئی دہلی میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا مبینہ دہشت گردوں کو دوسرے ملکوں میں داخل ہو کر ہلاک کرنا بھارت کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے؟
اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کی الگ الگ رائے ہے۔ بیشتر کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی کبھی نہیں رہی جب کہ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کے بیانات کو انتخابات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کے انٹیلی جینس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کی 20 کارروائیاں کی ہیں۔
پاکستان نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ بھارتی مبینہ جاسوس سربجیت سنگھ پر جیل میں حملہ کرنے والے ملزم عامر سرفراز تانبا پر حال ہی میں ہونے والے حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام کی کوششوں میں پیش پیش رہنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور 'سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس' کے چیئرمین او پی شاہ کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بیانات سے دونوں ملکوں کے درمیان مزید دوریاں پیدا ہوں گی۔
ان کے خیال میں اگر بھارتی سیاست داں سخت بیانات دیں گے تو پاکستانی سیاست دان بھی ایسا ہی کریں گے۔ ان کے بقول بیان بیازی سے نہ تو باہمی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی دہشت گردی ختم ہو گی۔
سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) ستیش دُوا کے خیال میں وزیرِ دفاع کے گھر میں گھس کر مارنے کے بیان سے ضرور تنازع پیدا ہوا ہے لیکن بھارت کی پالیسی مشکوک انداز میں مارنے کی نہیں رہی۔
ان کے بقول راج ناتھ سنگھ کے بیان کو اُڑی میں دہشت گردانہ حملے اور پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد بھارت کی کارروائیوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
'گھس کے مارنے کے بیان کا مطلب حملوں کا جواب دینا ہے'
بھارتی فوج پر اڑی میں ہونے والے حملے کے وقت لیفٹیننٹ جنرل دوا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کور کمانڈر تھے۔
ان کے بقول، "گھر میں گھس کر مارنے کا مطلب یہ ہے کہ اڑی میں حملے کے بعد بھارتی فوج ایل او سی کراس کر کے پاکستان کے علاقے میں گئی اور اس نے سرجیکل اسٹرائیک کر کے دہشت گرد کیمپوں کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح پلوامہ حملے کے بعد بھی بھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ کے پاس کارروائی کی۔"
بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے دونوں کارروائیوں میں دہشت گرد گروپوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ جب کہ پاکستان کی فوج نے سرجیکل اسٹرائیک کی تردید کی تھی۔ آپریشن بالاکوٹ کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ بھارت میں حزب اختلاف نے بھی سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت طلب کیا تھا جس پر بھارت میں تنازع ہو گیا تھا۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست اتراکھنڈ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اب کمزور ملک نہیں ہے۔ اب دہشت گردوں کو گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے۔ اس سے قبل ریاست بہار میں بھی انہوں نے ایک انتخابی جلسے کے دوران اسی طرح کے کلمات دہرائے تھے۔
امریکہ نے وزیرِ اعظم مودی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے ایک سوال پر کہا تھا کہ امریکہ کشیدگی سے بچنے اور مذاکرات سے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کے بیانات پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ستیش دوا کہتے ہیں پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے کئی گروپس ہیں جن میں آپس میں جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ البتہ وہ چوری چھپے کے قتل کے واقعات پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
او پی شاہ کے خیال میں گھر میں گھس کر مارنے کا بیان شاید انتخابات کے پیشِ نظر دیا گیا ہے۔ لیکن ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔
سینئر تجزیہ کار اور 'مسلم پولیٹیکل کونسل' کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی بھی مذکورہ بیانات کو انتخابات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کسی ملک میں گھس کو لوگوں کو ہلاک کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے وقت جب پوری دنیا میں کشیدگی ہے، اس طرح کے بیانات دینے کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش لگتا ہے۔
واضح ہے کہ بھارت میں 19 اپریل سے عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ووٹنگ کا سلسلہ مختلف مراحل میں یکم جون تک جاری رہے گا۔ انتخابات سے قبل ماضی میں بھی سیاست دانوں کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
تجزیہ کار ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق گھس کے مارنے جیسے بیانات دے کر حکومت کی جانب سے ضرورت سے زیادہ قوم پرستی کا جذبہ بیدار کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر اس کا کوئی اثر ہونے والا ہے۔
انہوں نے 'سرجیکل اسٹرائیک' اور 'آپریشن بالاکوٹ' کے حوالے سے کہا کہ جن دعوؤں پر سوالات اٹھنے لگیں اور ان کے تسلی بخش جواب نہ ملیں تو وہ مشکوک ہی رہیں گے۔
پاکستان کی کالم نگار عائشہ صدیقہ نے بھی نئی دہلی کی ایک نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے مضمون میں مذکورہ بیانات کی وجہ بھارت میں ہونے والے انتخابات کو بتایا ہے۔
ان کے مطابق یہ بیانات اپنے ووٹرز کو مرعوب کرنے کے لیے دیے گئے ہیں۔
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے مقامی نشریاتی ادارے 'سی این این نیوز 18' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دہشت گرد بھارت میں کارروائی کے بعد پاکستان میں جا کر چھپ جائیں گے تو بھارت وہاں بھی جا کر ان کو مارے گا۔
اسی طرح کا بیان انہوں نے پیر کو جموں کے کٹھوعہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران دیا اور کہا کہ "بھارت نے اڑی اور پلوامہ دہشت گرد حملوں کے بعد پوری دنیا کو دکھا دیا کہ ہمارے پاس وہ طاقت ہے کہ ہم سرحد کے اِس پار بھی مار سکتے ہیں اور ضرورت پڑی تو اُس پار بھی مار سکتے ہیں۔"
بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے جمعے کو مہاراشٹر کے شہر پونے میں ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ دہشت گرد کسی قانون کے تحت نہیں چلتے لہٰذا ان کو جواب دینے کے لیے بھی کسی قانون کی پابندی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے مطابق اگر ممبئی حملوں جیسی کارروائیوں کا جواب نہیں دیا جائے گا تو آئندہ ایسے واقعات کو کیسے روکا جا سکے گا۔
فورم