بھارت میں کرکٹ ورلڈ کپ میں جہاں میدان میں ٹیموں میں کانٹے کا مقابلے جاری ہیں، وہیں اس عالمی مقابلے سے متعلق تنازعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
وکٹ کیپر محمد رضوان نے سری لنکا کے خلاف میچ میں سینچری اسکور کی اور پاکستان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
محمد رضوان نے بعد ازاں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اس کامیابی کو غزہ کے لوگوں کے نام کیا جس پر اب تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
محمد رضوان نے 131 ناٹ آؤٹ کی اننگز اور پاکستان کی کامیابی کو غزہ کے نام کرتے ہوئے 'دعا ' کی ایموجی لگائی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ غزہ میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے لیے تھی'۔
بھارت کے معروف صحافی وکرانت گپتا نے پہلے محمد رضوان کی اس پوسٹ کی جانب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی توجہ دلائی۔
ان کا سوشل میڈیا پوسٹ میں کہنا تھا کہ جب بھارت کے کھلاڑی مہندر سنگھ دھونی کو ورلڈکپ 2019 کے دوران اپنے دستانوں سے آرمی کا نشان ہٹانے کو کہا جاسکتا ہےتو دیگر کھلاڑیوں کو بھی میگا ایونٹ کے دوران سیاسی اور مذہبی بیانات دینے سے دور رہنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے وکرانت گپتا کی اس ٹویٹ پر انہیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا اور انہیں وہ متنازع واقعات یاد دلانے کی کوشش کی جن میں بھارتی کھلاڑی یا پریزینٹرز شامل تھے۔
کسی نے 2019 میں وراٹ کوہلی کی اس سوشل میڈیا پوسٹ کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارت کے پائلٹ ابھی نندن کو ہیرو قرار دیا تھا۔ تو کسی نے ان کی توجہ 2022 میں فاسٹ بالر جسپریت بمراہ کی اہلیہ اور پریزنٹر سنجنا گنیشن کی جانب دلوائی جنہوں نے روسی حملے کے بعد یوکرین کے جھنڈے کے رنگ کا لباس پہن اس سے اظہارِ یکجہتی کیا تھا۔
زینب عباس کا معاملہ
پریزینٹرز کی بات ہو تو سب سے پہلا نام پاکستانی پریزینٹر زینب عباس کا آتا ہے جو ورلڈ کپ کے آغاز میں ہی بھارت چھوڑ کر چلی آئیں۔
ابھی تک انہوں نے اپنی پراسرار واپسی پر کوئی بیان نہیں دیا۔
اطلاعات کے مطابق ان کے ماضی میں کیے جانے والے کچھ متنازع ٹویٹ ان کی واپسی کی وجہ بنے۔
پچوں پر تنقید
تنازعات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ سابق بھارتی کھلاڑی گوتم گمبھیر نے اس ورلڈ کپ میں بنائی گئی پچوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بلے بازوں کے لیے موافق وکٹوں سے کرکٹ کو آگے جاکر نقصان ہو گا ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان وکٹوں پر فاسٹ بالرز اور اسپنرز کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے اس پر 350 سے 400 رنز بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم کی کرکٹ سے وہ نوجوان دور ہو جائیں گے جو کرکٹ کو اپنا پیشہ بنانا چاہتے ہیں ۔
بھارت کے سابق کپتان و مایہ ناز کمنٹیٹر سینل گواسکر نے بھی اپنے ایک کالم میں ورلڈ کپ کے لیے تیار کردہ اسٹیڈیم اور اس میں ملنے والی سہولیات کو ناقص قرار دیا۔
کچھ صحافیوں نے تو ایونٹ میں استعمال ہونے والی آؤٹ فیلڈ پر بھی سوال اٹھایا جس پر چند ایک کھلاڑی فیلڈنگ کے دوران زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ورلڈ کپ میں تنازعات پہلی بار سامنے نہیں آئے۔ ماضی میں بھی ورلڈ کپ اپنے ساتھ تنازعات کا طوفان لایا۔ ان پر نظر ڈالتے ہیں۔
آرم بینڈ سے مسئلہ، ٹیکنالوجی کے استعمال پر اعتراضات
سال 1999 اور 2003 میں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے کئی اپ سیٹ کامیابیاں حاصل کرکے اپنا لوہا منواہا۔ لیکن اسی ٹیم کے دو کھلاڑیوں کپتان اینڈی فلاور اور فاسٹ بالر ہنری اولونگا کو احتجاجا کالی پٹی باندھنے پر ایونٹ کے بعد عتاب کاشکار بنایا گیا۔
دونوں کھلاڑیوں نے ورلڈ کپ 2003 میں کینیا کے خلاف میچ سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں ہونے والے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور نومنتخب صدر رابرٹ موگابے کی کامیابی کو جمہوریت کی موت سمجھتے ہیں۔
اس الیکشن کے خلاف اینڈی فلاور اور الونگا نے فیلڈ پر سیاہ آرم بینڈ پہن کر احتجاج تو ریکارڈ کرایا۔ لیکن اس ایونٹ کے بعد زمبابوے کی کبھی نمائندگی نہیں کی۔
اس واقعے سے چار سال قبل جنوبی افریقہ کے کپتان ہینسی کرونئے کو میچ کے دوران ایئرپیس پہن کر فیلڈ پر جانا مہنگا پڑ گیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی کو کرکٹ میں کم ہی استعمال کیا جاتا تھا، ان کی اس جدت کو آئی سی سی نے بالکل پسند نہیں کیا۔
بھارت کے خلاف میچ میں انہوں نے ائیر پیس پہنا تھا تاکہ وہ اپنے کوچ باب وولمر سے رابطہ کر سکے جس پر مخالف ٹیم کے اوپنر سارو گنگولی نے اعتراض کیا تھا۔
اس اعتراض کے بعد تجربہ کار امپائرز اسٹیو بکنر اور ڈیوڈ شیپرڈ نے جنوبی افریقہ کے قائد کو ائیر پیس ہٹانے کا مشورہ دیا تھا۔
یہ وہی باب وولمر تھے جو 2007 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے اور آئرلینڈ کے خلاف اپ سیٹ شکست کے بعد جن کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔
ناقص امپائرنگ سے شائقین کا موڈ خراب
ہینسی کرونئے کے معاملے پر تو امپائرز کا مؤقف درست تھا لیکن آخری چار ورلڈ کپ مقابلوں میں آن فیلڈ امپائرز کے کنڈکٹ پر متعدد مرتبہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
سال 2007 کے تو ورلڈ کپ کے فائنل میں اضافی دن ہونے کے باوجود امپائرز نے میچ کو ایک ہی دن پر محدود کر دیا تھا۔
اگر اضافی دن کا فائدہ اٹھایا جاتا تو شاید سری لنکن ٹیم آسٹریلیا کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتی۔ لیکن ڈی آر ایس کے تحت آسٹریلیا کو فاتح قرار دیا گیا ۔
سال 2011 کے فائنل میں مہندر سنگھ دھونی نے کراؤڈ کے شور کی وجہ سے مخالف کپتان کو فائنل سے قبل دو مرتبہ ٹاس کرنے پر مجبور کیا۔ لیکن دونوں بار سری لنکا کے سنگاکارا ٹاس جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
اسی طرح 2015 کے کوارٹر فائنل میں بنگلہ دیشی کھلاڑیوں نے اس وقت حیرت کا اظہار کیا جب بھارتی بلے باز روہت شرما نے آؤٹ ہونے کے باوجود واپس جانے سے اس لیے انکار کیا، کیوں کہ ان کے خیال میں روبیل حسین کی پھینکی گئی گیند نو بال تھی۔
امپائرز نے روہت شرما کے حق میں فیصلہ دے کر بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کو ناراض کیا۔
اس وقت کے آئی سی سی کے صدر مصطفیٰ کمال نے بھی اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جس کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دینا پڑا۔
اور آخر میں بات چار سال قبل ہونے والے اس متنازع فائنل کی جس میں ایک ایک رن قیمتی ہونے کے باوجود سری لنکا کے امپائر کمار دھرماسینا نے انگلینڈ کو ایک اضافی رن دے کر میچ ٹائی کر دیا تھا۔
میچ میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوئی جب فیصلہ کن اوور میں رن لینے کے دوران انگلش کھلاڑی بین اسٹوکس کے بلے سے گیند لگ کر باؤنڈری پار کر گئی۔
ایسے میں امپائر کو چار رنز کے ساتھ ساتھ ایک وہ رن بھی دینا چاہیے تھا جسے بین اسٹوکس نے اس وقت تک مکمل کیا تھا لیکن انہوں نے میزبان ٹیم کو چھ رنز دے دیے۔
میچ کےبعد سابق امپائر سائمن ٹوفل کا کہنا تھا کہ فیلڈر نے جب تھرو پھینکی تو بلے بازوں نے ایک دوسرے کو کراس نہیں کیا تھا۔ اس لیے آن فیلڈ امپائر کو چھ کے بجائے پانچ رنز دینا چاہیے تھے۔
بعد میں کمار دھرماسینا نے بھی اپنی غلطی کو تسلیم کی لیکن اس سے میچ کا نتیجہ نہیں بدلا اور نیوزی لینڈ کو یقینی فتح سے پہلے ٹائی اور پھر سپر اوور میں باؤنڈری کاؤنٹ کی وجہ سے شکست پر اکتفا کرنا پڑا۔
سال 1992 کے ورلڈ کپ میں تنازع
کرکٹ کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے آج بھی 1992 کے ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو سب سے حیران کن فیصلہ قرار دیتے ہیں۔
دو دہائیوں کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھنے والی جنوبی افریقہ کی ٹیم کا سیمی فائنل میں مقابلہ انگلینڈ سے تھا۔
جنوبی افریقہ کو فائنل میں جگہ بنانے کے لیے 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے۔
انگلینڈ کے بنائے گئے 245 رنز کے تعاقب میں ڈیوڈ رچرڈسن اور برائن مک ملن عمدہ بیٹنگ کر رہے تھے کہ بارش کی وجہ سے کھیل روک دیا گیا۔
میچ دوبارہ شروع ہوا تو جنوبی افریقہ کو سات گیندوں پر 22 رنز کا ہدف ملا جو ان کے بلے بازوں کے لیے مشکل نہیں لگ رہا تھا۔
لیکن جب امپائرز نے دونوں بلے بازوں کو جاکر بتایا کہ قوانین کے مطابق 22 رنز بنانے کے لیے ان کے پاس صرف ایک گیند باقی ہے، تو انہیں یقین نہیں آیا اور برائن مک ملن نے آخری گیند پر سنگل لینے کے بعد فیصلے کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
اس قانون کو میگا ایونٹ کے بعد تبدیل کردیا گیا اور اس وقت کرکٹ میں جو ڈک ورتھ لیوس میتھڈ استعمال کیا جاتا ہے اس کی بنیاد اسی مضحکہ خیز فیصلے سے بچنے کے لیے پڑی۔