عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایک مضافاتی علاقے کی ایک پرہجوم مارکیٹ میں پیر کے روز ایک بم دھماکے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
عراقی فوج کے عہدےداروں نے بتایا ہے کہ یہ دھماکہ صدر سٹی کی وھالات مارکیٹ میں ہوا۔
طبی شعبے کے دو افسر، جنہیں بات کرنے کی اجازت نہیں، اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ طاقت ور دھماکے سے کم ازکم 30 افراد ہلاک اور کئی درجن زخمی ہوئے۔
الجزیرہ کی رپورٹ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 بتائی گئی ہے۔
یہ دھماکہ عید الضحیٰ سے ایک روز قبل ایسے موقع پر ہوا جب مارکیٹوں میں عید اور اشیائے خرد و نوش کی خریداریوں کے لیے رش تھا۔
دھماکے سے دکانداروں کا سامان ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا۔ انہوں نے بچ جانے والا سامان اکھٹا کرتے ہوئے میڈیا سے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے یہ دھماکہ کیسے ہونے دیا۔
ٹی وی نیوز چینل سی این این نے بتایا ہے کہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اس مارکیٹ کی حفاظت پر مامور فیڈرل پولیس کمانڈر کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔
یہ موجودہ سال میں بغداد کے گنجان آباد مشرقی علاقے کی ایک مارکیٹ کو نشانہ بنائے جانے کا تیسرا واقعہ ہے۔
اس سے قبل جون میں صدر سٹی ہی کی ایک اور مارکیٹ میں بم دھماکے کے نتیجے میں 15 افراد زخمی ہو گئے تھے، جب کہ اپریل میں صدر سٹی ہی میں ہونے والے ایک بم دھماکے کی زد میں آ کر 4 افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اس دھماکے لیے ایک کار میں بارودی مواد بھر کر اسے مارکیٹ میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔
پیر کا دھماکہ 10 اکتوبر کو ہونے والے وفاقی انتخابات سے تقریباً دو ماہ پہلے ہوا ہے۔
حالیہ برسوں میں 2017 میں داعش کو میدان جنگ میں شکست ہونے اور زیر قبضہ علاقے ہاتھ سے نکل جانے سے قبل بغداد میں تقریباً روزانہ بڑے دھماکے ہونا ایک معمول تھا۔
اگرچہ داعش کے بچے کھچے عناصر بکھر جانے کے بعد بم دھماکوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، تاکہ اب بھی گاہے بگاہے بڑے دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ جنوری کے مہینے میں وسطی بغداد کے ایک پرہجوم کاروباری علاقے میں دو خودکش دھماکوں سے 30 سے زیادہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔