رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: روہنگیا پناہ گزین پولیس کی پکڑ دھکڑ سے خوف کا شکار


جموں و کشمیر میں مقیم روہنگیا پناہ گزین پولیس کی پکڑ دھکڑ سے پریشان ہیں۔
جموں و کشمیر میں مقیم روہنگیا پناہ گزین پولیس کی پکڑ دھکڑ سے پریشان ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام نے جموں کے مضافات میں واقع کچی بستیوں میں مقیم 150 سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو حراست میں لے کر جیل بھیج دیا ہے۔ جس سے علاقے میں موجود لگ بھگ چھ ہزار روہنگیا پناہ گزینوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو فارنرز ایکٹ کی دفعہ تین کی ذیلی شق دو کے تحت ہفتے کو حراست میں لیا گیا ہے جنہیں جموں سے 56 کلو میٹر جنوب میں واقع ہیرا نگر کے مقام پر قائم کیے گئے ایک 'ہولڈنگ سینٹر' میں رکھا گیا ہے۔

حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ زیرِ حراست افراد غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے اور ان کے پاس مطلوبہ سفری دستاویزات موجود نہیں۔ اس لیے انہیں ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔

حکام نے بتایا کہ روہنگیا مسلمانوں کو ہولڈنگ سینٹر میں رکھنا غیر قانونی تارکینِ وطن کی شناخت اور پھر اُنہیں اپنے ملکوں میں واپس بھیجنے کے لیے شروع کی گئی حکومتی مہم کا ایک حصہ ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں نے جموں و کشمیر میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اس کارروائی کو غیر انسانی اقدام قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ 2017 میں میانمار میں امتیازی سلوک اور تشدد سے بچنے کے لیے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ہمسایہ ممالک فرار ہونا شروع کر دیا تھا۔ بھارت میں لگ بھگ 40 ہزار سے زائد روہنگیا پناہ گزین میانمار سے مغربی بنگال، بہار، جموں و کشمیر اور بعض دیگر ریاستوں میں آکر آباد ہوئے اور کچی بستیوں میں مقیم ہو گئے۔

بھارت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حال ہی میں ان پناہ گزینوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہے جس کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد گھبرا کر عارضی کیمپوں سے فرار ہونے لگی یا ان میں سے کئی خفیہ مقامات پر روپوش ہو گئے ہیں۔

اتوار کو سیکڑوں پناہ گزینوں نے اپنا سامان باندھ کر میانمار کی جانب پیدل مارچ شروع کر دیا تھا جن کا کہنا تھا کہ جموں میں ان کا مزید رہنا ناممکن بنایا جا رہا ہے۔

بعض مقامی بااثر مسلمانوں اور چند سرکاری عہدیداروں کے قائل کرنے پر وہ تقریباً چار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جموں کے مضافات میں نارووال کے علاقے میں واقع اپنی بستی قرانیتلاب واپس لوٹ آئے۔

ایسے پناہ گزینوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ رات بھر سوئے نہیں اور نہ ہی انہوں نے کچھ کھایا پیا۔ وہ اپنے اُن ساتھیوں کے لیے پریشان ہیں جنہیں پولیس اٹھا کر لے گئی ہے۔

ایک روہنگیا پناہ گزین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ "ہم یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں رہنے آئے۔ ہم میانمار میں عتاب کا شکار رہے۔ کئی برسوں سے جاری نسل کشی کے نتیجے میں ہم نے عزیزوں، دوستوں اور پڑوسیوں کو کھو دیا ہے۔ ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا اور دوسری املاک تباہ کی گئیں۔ وہاں جوں ہی حالات بہتر ہوں گے۔ ہم لوٹ جائیں گے۔"

جموں و کشمیر انتظامیہ کو بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کچھ دوسرے ہم خیال سیاسی گروہوں اور مقامی میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کی ملک بدری کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی جموں میں موجودگی اور انہیں ملک بدر کرنے کے بی جے پی کے مطالبے کی وضاحت کرتے ہوئے پارٹی کے ایک رہنما بریگیڈیئر ریٹائرڈ انیل گپتا کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار رہتے ہیں اور ایسے حالات میں روہنگیا کا بھارتی کشمیر میں رہنا ٹھیک نہیں۔

وائس آف امریکہ کو حال ہی میں دیے گئے انٹرویو میں انیل گپتا کا کہنا تھا کہ جموں محل وقوع کے لحاظ سے ایک حساس جگہ ہے جہاں روہنگیا کا رہنا 'ٹکنگ بم' کے مترادف ہے جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔

جموں انتظامیہ کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ اچھی ابتدا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو جموں و کشمیر کی سرحدوں سے جلد از جلد باہر بھیجا جائے۔

میانمار سے فرار ہو کر جموں و کشمیر میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت جموں کے مضافات میں واقع تین کچی بستیوں میں رہ رہی ہے۔ جہاں انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔

حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے ایک مقامی رہنما سلمان نظامی بی جے پی اور اس کی ہم خیال سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے اس طرزِ عمل کو اسلامو فوبیا کی ایک کڑی قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پناہ گزین، پناہ گزین ہوتا ہے۔ اسے مذہب اور عقیدے کی عینک سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ جموں و کشمیر میں تبت سمیت کئی دوسرے ممالک اور علاقوں کے پناہ گزین بھی مقیم ہیں۔ اُنہیں یہاں سے نکالنے کی بات کیوں نہیں ہو رہی؟

سلمان نظامی کے بقول روہنگیا پناہ گزینوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جب کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے بھی یہ گائیڈ لائنز سامنے آگئی ہیں کہ انہیں میانمار میں حالات ٹھیک ہونے تک نہ چھیڑا جائے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر بی جے پی ایک فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔

دوسری جانب انیل گپتا کہتے ہیں کہ روہنگیا پناہ گزین نہیں بلکہ غیر قانونی طریقے سے یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ جو لوگ اس طرح بھارت پہنچے ہیں انہیں پناہ گزین نہیں کہا جاسکتا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG