امریکی ایوان نمائندگان میں جمعے کو پاکستان کے حوالے سے دو بِل متعارف کرائے گئے جن میں اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں مدد کرنے پر ایک پاکستانی ڈاکٹر کے لیے انعام و اکرام کا وعدہ ہے۔ یہ دونوں بِل ایک ہی کانگریس مین ڈینا روہراباکر نے متعارف کرائے جن کا تعلق ریاست کیلی فورنیا سے ہے۔
یہ وہی کانگریس مین ہیں جو کانگریس کی امور خارجہ کمیٹی کے تحت گزشتہ ہفتے بلوچستان کے حالات پر ایک سماعت بھی کروا چکے ہیں۔ جمعے کو ان دو بِلوں کے ساتھ انہوں نے بلوچ عوام کے حق خود ارادیت پر ایک قرارداد بھی پیش کی۔
مجوزہ دو بلوں میں سے پہلے بِل میں ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو، جنہوں نے پولیو اور ہیپاٹائٹس کے ٹیکوں کی جعلی مہم کے نام پر اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے ڈی این اے شواہد جمع کرنے میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی، امریکی شہریت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جبکہ، دوسرے بِل میں انہیں امریکہ کے اعلٰی ترین سول اعزاز کانگریشنل گولڈ میڈل سے نوازنے پر اصرار کیا گیاہے۔
گزشتہ برس مئی میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی امریکی سپیشل فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پاکستان نے ڈاکٹر آفریدی کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی امداد کی ہے۔ ایبٹ آباد کے واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایبٹ آباد کمیشن نے ان پر غدّاری کا مقدّمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
امریکی کانگریس مین نے اپنی ایک پریس ریلیز میں اس بات کو ’’شرمناک” قرار دیا کہ جس شخص نے بن لادن کو پکڑنے میں امریکہ کی مدد کی، اسے پاکستان میں غدّار قرار دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر آفریدی نے جس طرح اپنی جان کی بازی لگا کر امریکہ کی مدد کی اس پر ’’تمام امریکی تہہ دل سے ان کے شکر گزار ہیں۔”
اس سے چند ہی روز قبل ڈاکٹر آفریدی کو پاکستان میں ان کی ملازمت سے باضابطہ طور پر برخواست کر دیا گیا تھا۔ زیر حراست پاکستانی ڈاکٹر پشاور کے سرکاری اسپتال ’خیبر میڈیکل کمپلیکس‘ سے منسلک تھے اور گزشتہ سال ان کی گرفتاری کی اطلاعات کے بعد صوبائی محکمہ صحت نے انھیں چار دیگر ملازمین سمیت فوری طور پر معطل کر دیا تھا۔
ڈاکٹر آفریدی کی اہلیہ کے پاس امریکی شہریت ہے اور وہ قبائلی پٹی درہ آدم خیل میں گورنمنٹ گرلز اسکول کی پرنسپل تھیں۔ تاہم، اپنے شوہر کی گرفتاری کے بعد وہ اور ان کے بچے روپوش ہیں اور محکمہ تعلیم پہلے ہی انھیں پرنسپل کے عہدے سے برطرف کر چکا ہے جس کی وجہ طویل غیر حاضری بتائی گئی تھی۔
پاکستان میں فلاحی تنظیمیں اس بات پر سخت ناراض ہیں کہ ڈاکٹر آفریدی نے پولیو کی جعلی مہم چلائی تھی، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے امدادی کارکنوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔