واشنگٹن —
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات، پرویز رشید نے کہا ہے کہ دہشت گردی ایک وفاقی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرز کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کا، اُن کے بقول، ایک جامع پروگرام تیار کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول، ’ہم صرف انتظار کر رہے ہیں کہ بجٹ سیشن ختم ہو، تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز، جو قومی سلامتی کے ذمہ دار ہیں، اُن کے ساتھ مشاورت کی جائے، اُنھیں اعتماد میں لیا جائے‘۔
اُنھوں نے یہ بات پیر کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے راؤنڈ ٹیبل پروگرام میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
وزیر اطلاعات کے بقول، ’ہم ہوم لینڈ کی طرز کا ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہتے ہیں جس میں دہشت گردی کے واقعات سے نمٹا جا سکے، تاکہ اِن واقعات کی روک تھام کی جاسکے‘۔
اُن سے پوچھا گیا کہ دیامر کے واقعے کےسلسلےمیں کیا اقدام کیا جارہا ہے، جس کے باعث پاکستان کی سیاحت کو سنگین دھچکا لگنے کا خدشہ ہے۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ پچھلے ادوار میں وفاق پر نکتہ چینی ہوتی رہتی تھی کہ مرکزیت ہے اور صوبوں کے امور اُنہی کے حوالے کیے جائیں، جس تشویش کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے محسوس کیا اور آئین کے مطابق، اُس کا حل نکالا۔ تاہم، دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ امور میں صوبائی حکومتوں کی استعداد کم ہے کہ وہ معاملات کو گرفت میں لے سکیں۔ ’لیکن، ایک مخصوص صورتِ حال میں جب پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور اس طرح کے بڑے المیے رونما ہونا شروع ہوئے ہیں، جو ہر ایک کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں، مثلاً کراچی میں جب کو ئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان کی معیشت اس کی زد میں آجاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں جب دہشت گردی کا واقع ہوگا تو سیاحت اس کی زد میں آئے گی‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’ دہشت گردی کا مسئلہ صوبائی معاملہ نہیں‘، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان اس کی طرف توجہ دے۔ ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر گذشتہ 16برس کے دوران اقتدار میں رہنے والی حکومتوں سے پوچھا جائے کہ اُنھوں نے دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر طریقہ کار کیوں نہیں بنایا۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
اُن کے بقول، ’ہم صرف انتظار کر رہے ہیں کہ بجٹ سیشن ختم ہو، تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز، جو قومی سلامتی کے ذمہ دار ہیں، اُن کے ساتھ مشاورت کی جائے، اُنھیں اعتماد میں لیا جائے‘۔
اُنھوں نے یہ بات پیر کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے راؤنڈ ٹیبل پروگرام میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
وزیر اطلاعات کے بقول، ’ہم ہوم لینڈ کی طرز کا ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہتے ہیں جس میں دہشت گردی کے واقعات سے نمٹا جا سکے، تاکہ اِن واقعات کی روک تھام کی جاسکے‘۔
اُن سے پوچھا گیا کہ دیامر کے واقعے کےسلسلےمیں کیا اقدام کیا جارہا ہے، جس کے باعث پاکستان کی سیاحت کو سنگین دھچکا لگنے کا خدشہ ہے۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ پچھلے ادوار میں وفاق پر نکتہ چینی ہوتی رہتی تھی کہ مرکزیت ہے اور صوبوں کے امور اُنہی کے حوالے کیے جائیں، جس تشویش کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے محسوس کیا اور آئین کے مطابق، اُس کا حل نکالا۔ تاہم، دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ امور میں صوبائی حکومتوں کی استعداد کم ہے کہ وہ معاملات کو گرفت میں لے سکیں۔ ’لیکن، ایک مخصوص صورتِ حال میں جب پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور اس طرح کے بڑے المیے رونما ہونا شروع ہوئے ہیں، جو ہر ایک کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں، مثلاً کراچی میں جب کو ئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان کی معیشت اس کی زد میں آجاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں جب دہشت گردی کا واقع ہوگا تو سیاحت اس کی زد میں آئے گی‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’ دہشت گردی کا مسئلہ صوبائی معاملہ نہیں‘، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان اس کی طرف توجہ دے۔ ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر گذشتہ 16برس کے دوران اقتدار میں رہنے والی حکومتوں سے پوچھا جائے کہ اُنھوں نے دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر طریقہ کار کیوں نہیں بنایا۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: