آئیے ہم اپنی کتابیں اور قلم اٹھائیں۔ یہی ہمارا سب سے قیمتی ہتھیار ہے۔ ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم پوری دنیا بدل سکتی ہے۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو ملالہ یوسفزئی نے اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر ادا کیے تھے۔ وہ ملالہ یوسفزئی جنھوں نے 12سال کی عمر میں ’بی بی سی‘ کے لیے لکھی گئی اپنی ایک ڈائری میں طالبان کے ظلم کو بے نقاب کیا اور وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے لوگ نہ کرسکے۔ جس کے بعد، گذشتہ برس نو اکتوبر کو طالبان نے اُن پر قاتلانہ حملہ کیا۔ لیکن، آج ملالہ نہ صرف زندہ ہیں، بلکہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔
بے شمار بین الاقوامی ایوارڈز کے علاوہ اُن کو نوبیل کے امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
نوبیل کے امن انعام کا اعلان جمعے کو ہونا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ملالہ یوسف زئی نوبیل انعام کی اہل ہیں اور کیا وہ یہ انعام جیت سکیں گی، پروگرام راؤنڈٹیبل میں ملالہ کی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کے غیر سرکاری ایڈیٹر عبدالحئی کاکڑ نے کہا کہ چونکہ ایسے وقت میں جب سوات پر طالبان کا کنٹرول تھا اور وہ مقامی لوگوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے تھے، ملالہ نے نہ صرف طالبان کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ اُن کی دہشت گرد کارروائیوں کو بے نقاب بھی کیا۔
کاکڑ کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب بڑے بڑے لوگ طالبان کے خلاف کچھ نہ کر سکے، 12سالہ لڑکی نے یہ کارنامہ پُرمن انداز میں کردکھایا۔
طالبان کے حملے کے بعد ملالہ نے بندوق نہیں اٹھائی اور اپنی زبان اور قلم کے ذریعے، دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی۔
تاہم، عبدالحئی کاکڑ کہتے ہیں کہ ملالہ کو نابیل امن انعام نوازنے سے متعلق کچھ نزاکتیں بھی ہیں جن میں بڑا سوال یہ ہے کہ 16 سالہ ایک بچی نابیل امن انعام کی ذمہ داری اٹھا سکے گی یا نہیں؟
ملالہ کو امن کا نوبیل انعام ملنا چاہیئے اور اگر ہاں تو کیوں؟
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن، فرزانہ باری کا جواب تھا کہ ملالہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ اور ایک فکر ہے جو پاکستان کی اُن لاکھوں بچیوں کو آواز ہے جو کہ کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔
عالمی مقبولیت سے متعلق سازشی مفروضوں کے حوالے سے عبد الحئی کاکڑ نے سوال اٹھایا کہ ایسے میں جب پاکستان کو امن کی ضرورت ہے، امن کے لیے ملالہ کی خواہش کب سازش ہو سکتی ہے؟
ایسے میں جب پاکستان میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، تعلیم کے لیے آواز اٹھانا کیا سازش ہے؟ جب ملالہ برداشت کی بات کرتی ہے کیا یہ مغرب کی سازش ہے؟
عبد الحئی کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملالہ کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر اُنھیں نابیل کے امن انعام سے نوازا جاتا ہے تو پاکستان کے لوگوں کو اس پر فخر کرنا چاہیئے نہ کہ شکوک و شبہات کا اظہار کرنا چاہیئے۔
نوبیل انعام 1901ء میں شروع کیا گیا۔ 1901ء سے 2012ء کے دوران، اب تک 835 افراد اور 21 اداروں کو اس انعام سے نوازا جا چکا ہے۔
اگر ملالہ نوبیل کا امن انعام جیتتی ہیں تو وہ یہ انعام جیتنے والی دنیا کی سب سے کم عمر لڑکی ہوں گی۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے وڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے:
یہ وہ الفاظ ہیں جو ملالہ یوسفزئی نے اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر ادا کیے تھے۔ وہ ملالہ یوسفزئی جنھوں نے 12سال کی عمر میں ’بی بی سی‘ کے لیے لکھی گئی اپنی ایک ڈائری میں طالبان کے ظلم کو بے نقاب کیا اور وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے لوگ نہ کرسکے۔ جس کے بعد، گذشتہ برس نو اکتوبر کو طالبان نے اُن پر قاتلانہ حملہ کیا۔ لیکن، آج ملالہ نہ صرف زندہ ہیں، بلکہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔
بے شمار بین الاقوامی ایوارڈز کے علاوہ اُن کو نوبیل کے امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
نوبیل کے امن انعام کا اعلان جمعے کو ہونا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ملالہ یوسف زئی نوبیل انعام کی اہل ہیں اور کیا وہ یہ انعام جیت سکیں گی، پروگرام راؤنڈٹیبل میں ملالہ کی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ کے غیر سرکاری ایڈیٹر عبدالحئی کاکڑ نے کہا کہ چونکہ ایسے وقت میں جب سوات پر طالبان کا کنٹرول تھا اور وہ مقامی لوگوں پر ظلم و ستم ڈھا رہے تھے، ملالہ نے نہ صرف طالبان کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ اُن کی دہشت گرد کارروائیوں کو بے نقاب بھی کیا۔
کاکڑ کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب بڑے بڑے لوگ طالبان کے خلاف کچھ نہ کر سکے، 12سالہ لڑکی نے یہ کارنامہ پُرمن انداز میں کردکھایا۔
طالبان کے حملے کے بعد ملالہ نے بندوق نہیں اٹھائی اور اپنی زبان اور قلم کے ذریعے، دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی۔
تاہم، عبدالحئی کاکڑ کہتے ہیں کہ ملالہ کو نابیل امن انعام نوازنے سے متعلق کچھ نزاکتیں بھی ہیں جن میں بڑا سوال یہ ہے کہ 16 سالہ ایک بچی نابیل امن انعام کی ذمہ داری اٹھا سکے گی یا نہیں؟
ملالہ کو امن کا نوبیل انعام ملنا چاہیئے اور اگر ہاں تو کیوں؟
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن، فرزانہ باری کا جواب تھا کہ ملالہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ اور ایک فکر ہے جو پاکستان کی اُن لاکھوں بچیوں کو آواز ہے جو کہ کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔
عالمی مقبولیت سے متعلق سازشی مفروضوں کے حوالے سے عبد الحئی کاکڑ نے سوال اٹھایا کہ ایسے میں جب پاکستان کو امن کی ضرورت ہے، امن کے لیے ملالہ کی خواہش کب سازش ہو سکتی ہے؟
ایسے میں جب پاکستان میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، تعلیم کے لیے آواز اٹھانا کیا سازش ہے؟ جب ملالہ برداشت کی بات کرتی ہے کیا یہ مغرب کی سازش ہے؟
عبد الحئی کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملالہ کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر اُنھیں نابیل کے امن انعام سے نوازا جاتا ہے تو پاکستان کے لوگوں کو اس پر فخر کرنا چاہیئے نہ کہ شکوک و شبہات کا اظہار کرنا چاہیئے۔
نوبیل انعام 1901ء میں شروع کیا گیا۔ 1901ء سے 2012ء کے دوران، اب تک 835 افراد اور 21 اداروں کو اس انعام سے نوازا جا چکا ہے۔
اگر ملالہ نوبیل کا امن انعام جیتتی ہیں تو وہ یہ انعام جیتنے والی دنیا کی سب سے کم عمر لڑکی ہوں گی۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے وڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے: