طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد روس بغور اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ وہ افغانستان کی اس صورت حال سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جس میں مواقع بھی ہیں اور خطرات بھی۔ گو کہ ماسکو نے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، روسی حکام طالبان سے کئی ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں؛ حتیٰ کہ جنگجو گروپ کو ماسکو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے عمل سے جہاں مغربی ممالک کو یہ تشویش ہے کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو طالبان کے طاقت میں آنے کے بعد جبر کے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے، روس بھی صورت حال سے متعلق ایک نرم انداز اپنائے ہوئے ہے۔
اقوام متحدہ کے لئے وائس آف امریکہ کی نمائندہ مارگریٹ بشیر کی رپورٹ کے مطابق، طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے روسی مندوب ایمبیسیڈر واسیلی نیبینزایا نے صورت حال کے متعلق کہا کہ صورتحال کے بارے میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابل میں روس کا سفارتخانہ معمول کے مطابق کام کرتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ روس کا مفاد افغانستان میں ایک تیزتر پر امن حل، استحکام کے قیام اور جنگ کے بعد ملک کی بحالی سے وابستہ ہے۔
افغانستان میں ماضی کی روسی دراندازی سے بگڑنے والی صورت حال کی یادیں ابھی تازہ ہیں۔
یہ 1979 کی بات ہے جب اس وقت کے سوویت یونین نے کابل میں کمیونسٹ حکومت کی مضبوطی کے لئے اپنی فوج افغانستان بھیجی تھی۔ اس وقت کی کمیونسٹ حکومت مجاہدین کہلانے والے افغان باغیوں سے نبردآزما تھی۔ لیکن جسے ایک ہفتہ کا آپریشن سمجھا گیا تھا وہ ایک دہائی کی جنگ کی صورت اختیار کر گیا، جس میں سوویت یونین کا مالی اور جانی نقصان ہوا۔ اور جوں ہی روسی فوج افغانستان سے نکلی کابل کی کمیونسٹ حکومت گر گئی۔
آج روس کا اولین خدشہ یہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد اس کے اتحادی وسط ایشیائی ممالک میں نہ پہنچ جائیں۔
اس سلسلے میں ایمبیسیڈر نبینزایا نے سلامتی کونسل کو بتایا، "ہم یہاں زور دینا چاہیں گے کہ روسی فیڈریشن صرف ان افغان سیاسی قوتوں سے بات چیت کرے گی جو داعش، القائدہ یا اس سے جڑے گروپوں سے تعلق نہ رکھتی ہوں۔"
لیکن واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے منسلک سینیئر فیلو مارک سماکووسکی کہتے ہیں کہ روس کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے اور وہ ایک جانب کھڑا بھی نہیں رہ سکتا۔
مبصرین کے مطابق روس افغانستان میں اپنے سلامتی اور اقتصادی مفادات کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور وہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ان مفادات کے تحفظ کی خاطر افغان طالبان سے ملنے کو بھی تیار ہے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے یورپ اور وسط ایشیا کے پروگرام ڈائریکٹر اولگا اولیکر کہتے ہیں کہ "طالبان اس وقت افغانستان کا چارج سنبھالے ہوئے ہیں، اگر آپ تجارت کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ وسط ایشیا کے لیے سلامتی کی ضمانت چاہتے ہیں اور اگر آپ معدنیات پر کام کرنے کے اختیارات چاہتے ہیں تو آپ کو انہی (افغان طالبان) سے بات چیت اور ملاقات کرنا ہوگی۔"
ماسکو نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک تاجکستاں اور ازبکستاں میں جنگی مشقوں کے ذریعہ اپنی قوت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ یہ مشقیں ایسے وقت منعقد ہوئیں جب طالبان وسط ایشیا سے جڑے افغانستان میں پیش قدمی کر رہے تھے۔
ساتھ ہی روس کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ کے انخلا کو پروپیگنڈا کا رنگ دے کر ایسا بیانیہ بنائے جس سے وہ واشنگٹن کےحمایت یافتہ لوگوں کو یوکرین اور اسی طرح وینیزویلا میں حزب اختلاف کو پریشان کر سکے۔
سیماکووسکی کہتی ہیں کہ فی الوقت روس کی یہ ترجیح ہے کہ وہ افغانستان میں خلا کو اپنے اثر و رسوخ سے پر کرکے ان تعلقات سے فائدہ اٹھائے جو ماسکو نے طالبان کے ساتھ کئی برسوں سے بنا رکھے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ روس طالبان کی کامیابی کو عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کی کمزوری کے طور پر ظاہر کر کے دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔