افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کو ایک ہفتہ بھی ابھی نہیں ہوا اور مختلف ممالک کی حکومتوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ کیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے اور وہ افغانستان میں نئی حکومت کو کب تسلیم کریں؟
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی طرف سے 1999 میں دہشت گرد گروہ قرار دیے جانے والے طالبان پر دو دہائیوں سے تنقید کی جا رہی ہے۔
افغانستان میں سوویت یونین کے ساتھ لگ بھگ 10 برس تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد جب طالبان نوے کی دہائی میں سامنے آئے تھے تو صرف تین ممالک نے طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کو باقاعدہ تسلیم کیا تھا جن میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل تھے۔
حالیہ دنوں میں ممالک میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے نقصانات اور فوائد پر بحث جاری ہے۔ بیشتر ممالک انتظار کریں گے کہ پہلے دیگر ملک طالبان کی حکومت کو تسلیم کریں۔
امریکہ کے وزارتِ داخلہ کا رواں ہفتے کہنا تھا کہ افغانستان میں حکومت کی باقاعدہ منتقلی نہیں ہوئی اس لیے اس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کیا۔
بعض رپورٹس کے مطابق دیگر ممالک جیسے کہ روس اور چین جو کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سیکیورٹی کے خلا کو پر کرنا چاہتے ہیں، وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی بحران کے ڈائریکٹر رچرڈ گون کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کونسل کے مغربی اراکین خواتین کے حقوق سے متعلق فکر مند ہیں۔ روس خطے کی سیکیورٹی اور منشیات کی تجارت سے متعلق توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روس اور چین کے پاس وجوہات ہیں کہ وہ طالبان سے متعلق پر امید ہوں۔
اقوامِ متحدہ میں روس کے سفارت کار وسیلے نیبنزیا کا طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اگلے روز سیکیورٹی کونسل کی ہنگامی میٹنگ میں کہنا تھا کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ گھبرایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماسکو میں ان کا سفارت خانہ معمول کے مطابق کام کرے گا۔
ان کے بقول روس کے طالبان سے متعلق اقدامات کا انحصار طالبان کے اقدامات اور ان کی مخصوص کارروائیوں پر ہو گا۔
چین نے حال ہی میں شمالی شہر تیانجن میں طالبان کے 9 رہنماؤں کی میزبانی کی تھی جب کہ رواں ہفتے منگل کو چین نے بین الاقوامی برادری سے کہا تھا کہ طالبان کی مثبت سمت کی طرف حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہیے۔ نا کہ ان پر مزید پریشر ڈالا جائے۔
پاکستان، جو کہ طالبان کے لیے ایک عرصے سے محفوظ پناہ گاہ رہا ہے، کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں مخلوط حکومت کے قیام کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
مغربی ممالک بھی افغانستان کو تسلیم کرنے سے متعلق باہمی طور پر فیصلہ کریں گے۔
اگلے ہفتے بڑی صنعتوں والے سات ممالک کے سربراہان کے گروپ جی سیون کی ملاقات طے ہے۔ یہ رہنما طالبان کے لیے اہداف کا تعین کریں گے جن کو پورا کرنے پر یہ ممالک سفارتی طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کر سکتے ہیں۔