رسائی کے لنکس

روس اور چین کے بڑھتے ہوئے مراسم


روس اور چین کے بڑھتے ہوئے مراسم
روس اور چین کے بڑھتے ہوئے مراسم

روس کے وزیرِ اعظم ولادیمر پوٹن نے اگلے دس برسوں میں روس پر حکومت کرنے کے سیاسی منصوبے کا اعلان کرنے کے بعد، اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے چین کا انتخاب کیا ۔

روس کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے، چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ تجارت میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور اس عشرے کے آخر تک یہ تین گنا ہو سکتا ہے ، یعنی تجارت کی مالیت 200 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے ۔ لہٰذا وزیرِ اعظم پوٹن سب سے پہلے بیجنگ گئے تا کہ اس ملک کے ساتھ تعلقات کو اور مضبوط بنائیں جو دو طرفہ تعلقات میں ان کے لیے اہم ترین ہے ۔

بیجنگ میں روسی لیڈر نے بڑھتی ہوئی تجارت اور سرمایہ کاری کی بات کی۔ انھوں نے خلا، طب، ہوائی جہازوں کی تعمیر اور بایو ٹکنالوجی جیسے ہائی ٹیک شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر زور دیا۔ دو روزہ دورے کے اختتام پر جو سب سے بڑا سودا ہوا وہ سائبیریا میں المونیم پگھلانے کا منصوبہ ہے جس میں چین ڈیڑھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔

روسیوں کا یہ اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ چین کے ساتھ ان کا تعلق بالکل اسی قسم کا ہو جائے گا جو کینیڈا کا امریکہ کے ساتھ ہے، یعنی روس ، چین کے لیے تیل، گیس، معدنیات، لکڑی اور دوسرے خام مال کا ذریعہ بن کر رہ جائے گا۔

لندن کے کنگز کالج کے پروفیسر اناتول لیون روس پر چین کے عروج کے اثرات کا مطالعہ کر رہےہیں۔ وہ کہتے ہیں روس کے اعلیٰ طبقے کے لیے یہ خیال نا قابلِ قبول ہے کہ چین کے حوالے سےروس کی حالت ویسی ہی ہو جائے جو امریکہ کے لیے کینیڈا کی ہے۔

سوویت یونین کے زوا ل کے بعد، پہلے عشرے میں، چین کو روس کی بر آمدات کا بڑا حصہ ہائی ٹیک چیزوں پر، جیسے فائٹر جیٹ جہاز اور مزائلوں کے نظاموں پر مشتمل تھا۔ لیکن اب روس کو شکایت ہے کہ چین اس کی ملٹری ٹکنالوجی، جیسے Sukhoi fighter jets کی نقل بنا رہا ہے ۔ گذشتہ ہفتے، ماسکو میں ایک چینی باشندے کو اس شبے میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ روس کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے دو مار مزائل سسٹم S-300 کے بلو پرنٹس خریدنے کی کوشش کر رہا تھا۔

لنڈا جیکبسن نے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے لیے چین اور روس کے تعلقات کے بارے میں ایک نئی رپورٹ تصنیف کی ہے ۔ وہ کہتی ہیں’’ گذشتہ پانچ برسوں میں اسلحہ کی فروخت میں بہت کمی آئی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ چینی ہر وہ چیز خرید چکے ہیں جو روسی انہیں فروخت کرنے کو تیار ہیں یا فروخت کر سکتے ہیں۔‘‘

روس اور چین کے تعلق کا ایک اور پہلو توانائی کی فروخت تھا۔ لیکن یہاں بھی روس کی برتری ختم ہو چکی ہے ۔

16 برس سے، روس اور چین، سائبیریا سے چین تک دو گیس لائنوں کی تعمیر کے بارے میں مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ روسی قیمت کے بارے میں سودے بازی میں الجھے رہے، اور ادھر چینیوں نے وسط ایشیا کے ملک ترکمانستان سے چین تک گیس کی لائن تعمیر کر ڈالی۔

گذشتہ منگل کو ایک برطانوی کمپنی نے کہا کہ ترکمانستان کی ایک گیس فیلڈ، دنیا کی دوسری سب سے بڑی گیس فیلڈ ہے۔اب ترکمانستان جو کبھی روس کی نو آبادی تھا، ہر سال چین کو 60 ارب کیوبک میٹر گیس بر آمد کیا کرے گا۔ گیس کی یہ اتنی ہی مقدار ہے جس کے بارے میں روس 1990 کی دہائی سے باتیں کرتا رہا ہے۔ جیکبسن کہتی ہیں کہ تیل کے شعبے کی طرح گیس کے شعبے میں بھی ، چین نے زبردست کوشش کی ہے کہ وہ بہت سے مختلف ذرائع سے اپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے لگے۔

روس نے جو دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، ایک عرصے تک یہ فرض کیے رکھا کہ چین کی مارکیٹ تو اس کے قبضے میں ہی رہے گی۔ لیکن روسی تو قیمت کے فارمولوں میں الجھے رہے، اور ادھر چین نے دوسرے ذرائع تلاش کر لیے ۔ لندن کے کنگز کالج کے پروفیسر اناتول لیون کہتے ہیں’’روس چین کو توانائی فراہم کرنے والا ایک اہم ملک تو ہے لیکن اسے بہت بڑا ملک نہیں کہہ سکتے۔ روس اب بھی اتنی ہی مقدار فراہم کرتا ہے جتنی ایران اور یہ مقدار بس اتنی ہی ہے جتنی انگولا فراہم کرتا ہے۔‘‘

جیکبسن کہتی ہیں کہ اگر چین کو جانے والی سمندری گذر گاہیں خطرناک ہو جائیں، تو روس کو ایک بار پھر برتری حاصل ہو جائے گی لیکن فی الحال چین کو تیل فراہم کرنے والے ملکوں میں روس کا نمبر پانچواں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ چین نے بڑی کامیابی سے تیل کی فراہمی کے ذرائع میں تنوع پیدا کر لیا ہے ۔

لیون کہتے ہیں کہ چین نے اتنی تیزی سے زبردست طاقت حاصل کی ہے کہ روس کو اب نیٹو یا امریکہ کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل ہونے کی جرأت نہیں ہو گی۔ اس کے بجائے، روس چین سے اپنی خود مختاری کا دفاع اسی صورت میں کر سکے گا جب وہ واشنگٹن کے ساتھ غیر ضروری تنازعات میں نہ الجھے ۔

جیکبسن نے حال ہی میں بیجنگ میں اپنے قیام کے بیس سال مکمل کیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انہیں یہ بات بڑی عجیب سی لگی کہ چینیوں میں روس کے حوالے سے برتری کا کتنا احساس پیدا ہو گیا ہے ۔ انھوں نے اس سال کے شروع میں سیاسیات کے ایک چینی ماہر کو انٹر ویو کیا۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے یہ اعتراف تو کیا کہ چین، امریکہ اور جاپان کو چاہے پسند نہ کرے، لیکن چین بہت سی باتیں ان دونوں ملکوں سے سیکھ سکتا ہے۔ لیکن روس کے بارے میں ان کا رویہ سرا سر تحقیر آمیز تھا۔

جیکبسن کہتی ہیں’’انھوں نے کہا کہ روس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ برتری کا یہ احساس چین میں روز افزوں ہے اور اس سے اس تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے جو چین میں روس کے بارے میں آ رہی ہے۔‘‘

جب وزیرِ اعظم پوٹن جب اگلے دس برسوں کےلیے اپنا لائحہ عمل ترتیب دیں گے، تو ان کی نظر میں چین کی تیز رفتار ترقی روس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگی۔

XS
SM
MD
LG