رسائی کے لنکس

کیا روس بھارت اور چین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے؟


صدر شی اور وزیر اعظم مودی کی 'برکس' اجلاس کے دوران ملاقات (فائل)
صدر شی اور وزیر اعظم مودی کی 'برکس' اجلاس کے دوران ملاقات (فائل)

بھارت اور چین میں سرحدی کشیدگی کے دوران گزشتہ چند ہفتوں میں ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔

روس میں بھارت کے سفیر ڈی بالا وینکٹیش ورما اور روس کے نائب وزیر خارجہ ایگور مورگولوف کے درمیان بھارت چین جھڑپ کے دو روز بعد بذریعہ فون بات چیت ہوئی اور اب روسی وزارتِ دفاع کی دعوت پر بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ ماسکو پہنچے ہیں۔

راج ناتھ سنگھ بدھ کو روس کے 75 ویں 'وکٹری ڈے' پریڈ میں شرکت کریں گے۔

راج ناتھ سنگھ کے بقول اُن کا ماسکو کا یہ دورہ کووڈ۔19 عالمی وبا کے بعد پہلا باضابطہ غیر ملکی دورہ ہے۔​

روس پہنچنے پر اُن کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ہماری خصوصی دوستی کا ایک اشارہ ہے۔ عالمی وبا کی تمام دشواریوں کے باوجود مختلف سطحوں پر ہمارا دوطرفہ رابطہ قائم ہے۔ ان کے بقول، ہمارا دفاعی رشتہ تعلقات کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔

راج ناتھ سنگھ نے روس کے نائب وزیرِ اعظم یوری بوریسوف کے ساتھ، جو کہ ان کے ہوٹل میں ملنے پہنچے تھے، باہمی دفاعی تعلقات کا جائزہ لیا۔

راج ناتھ سنگھ کا روس کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی عروج پر ہے، بالخصوص 15 جون کو دونوں ملکوں کی فوجوں میں پرتشدد جھڑپ کے بعد جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

روس کے وکٹری پریڈ میں چین کے وزیرِ خارجہ وائی فنگھے بھی شرکت کریں گے۔ اس کے علاوہ بھارت اور چین کے فوجی دستے بھی اس میں حصہ لیں گے۔ بھارت کا 75 رکنی فوجی دستہ پہلے ہی ماسکو پہنچا ہوا ہے۔

چین کے سرکاری اخبار 'گلوبل ٹائمز' نے منگل کے روز یہ خبر دی تھی کہ چینی وزیرِ دفاع بھارت چین سرحدی کشیدگی ختم کرانے کے سلسلے میں اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد بھارت نے اس کی تردید کی تھی۔

بھارت کے ایک سینئر عہدے دار کے مطابق، راج ناتھ سنگھ 'وکٹری پریڈ' کے موقع پر چینی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات نہیں کریں گے۔

دریں اثنا، روس نے بھارت اور چین کے درمیان ثالثی کی تردید کی اور کہا کہ دونوں ملکوں کو اپنے اختلافات ختم کرنے کے لیے کسی تیسرے فریق کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا یہ بیان بھارت، روس اور چین کے وزرائے خارجہ کے ورچوول اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ بھارت اور چین کو کسی کی مدد کی، بالخصوص تنازعات کو حل کرنے میں، ضرورت ہے۔

اسپوتنک نیوز نے روسی وزیر خارجہ کے حوالے سے کہا کہ سرحد پر ہونے والے واقعہ کے بعد دونوں ملکوں کے ملٹری کمانڈ اور وزرائے خارجہ کے درمیان میٹنگس ہوئیں اور رابطہ قائم ہوا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ رابطے جاری ہیں۔

دریں اثنا بھارت اور چین کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ ان کی فوجیں تمام متنازعہ مقام سے پیچھے ہٹیں گی۔

یہ فیصلہ پیر کے روز ایل اے سی پر چین کی جانب مولڈو کے مقام پر دونوں ملکوں کے سینئر کمانڈروں کے درمیان گیارہ گھنٹے تک چلی بات چیت کے میں کیا گیا۔

بھارتی فوج کے ذرائع کے مطابق بات چیت خوشگوار، مثبت اور تعمیری ماحول میں ہوئی۔ دونوں نے اس سے اتفاق کیا کہ مشرقی لداخ کے تمام متنازعہ علاقوں سے پیچھے ہٹنے کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بیجنگ میں کہا کہ فریقین نے اچھے ماحول میں بات کی اور کشیدگی کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی۔

روس کی خبر رساں ایجنسی، تاس کے مطابق روسی صدر کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ''کریملن کو بھارت اور چین کے درمیان فوجی ٹکراؤ پر تشویش ہے۔ لیکن، ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ملک از خود اس تنازعے کو حل کر لیں گے''۔

بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کا منگل کو ایک سہ فریقی ورچوول اجلاس ہوا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اجلاس میں کہا کہ دنیا کی قائدانہ آوازوں کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کر کے اور شراکت داروں کے مفادات کو پہچان کر مثالی انداز میں کام کرنا چاہیے۔

انھوں نے روسی وزیر خارجہ وانگ ای کی موجودگی میں یہ بات کہی۔ تاہم، انھوں نے کسی کا نام نہیں لیا۔

ایک سابق سفیر اور سینئر تجزیہ کار پناک رنجن چکرورتی کہتے ہیں کہ روس، بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس کا ایجنڈا دو طرفہ نہیں بلکہ جنرل ہے۔ تاہم، انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں بھارت اور چین میں ہونے والی جھڑپ کے سلسلے میں بھی اجلاس میں بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہو گی، کیونکہ بہر حال دونوں ملکوں کو از خود اس تنازعے کو حل کرنا ہوگا اور سرحد پر اس کے لیے بات چیت چل رہی ہے۔

اس سوال پر کہ بھارت اور روس میں تاریخی رشتے رہے ہیں اور اس وقت روس اور چین میں کافی قربت ہے تو کیا روس چین پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر سکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ روس کسی فریق کی حمایت نہیں کرے گا، کیونکہ، بقول ان کے، ''اس وقت روس چین کے جال میں پھنسا ہوا ہے''۔

ان کے مطابق، روس اور چین میں اقتصادی رشتے بہت گہرے ہیں۔ چین روس سے بہت تیل اور گیس خریدتا ہے۔ روس کا 80 فیصد غیر ملکی زرمبادلہ تیل اور گیس سے آتا ہے۔ لہٰذا، روس ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے لگے کہ وہ بھارت کا ساتھ دے رہا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھارت اور روس کے عہدے داروں نے کہا تھا کہ وزرائے خارجہ کا ورچوول اجلاس سہ فریقی ہے اور یہ کہ بھارت چین سرحدی تنازع ایجنڈے میں شامل نہیں ہو گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG